علماء کے وقار کا قائم رہنا حفاظت دین کیلئے ضروری ہے

علماء کے وقار کا قائم رہنا حفاظت دین کیلئے ضروری ہے

لاہور کے جلسہ جمعیت العلماء کا یہ حال سن کر کہ وہاں پتھر اور جوتے پھینکے گئے بہت افسوس ظاہر فرمایا اور فرمایا کہ چاہے میری رائے کو کم ہمتی پر محمول کیا جائے لیکن میری رائے تو رنگ زمانہ دیکھ کر یہی ہے کہ علماء حجرہ میں بیٹھ کر بس اپنا یجوز لایجوز ہی کا کام کریں ورنہ ایسے حال میں عوام کی نظر میں علماء کی کیا وقعت رہ جاوے گی۔
اور علماء کے وقارکا قائم رہنا حفاظت دین کے لیے نہایت ضروری ہے۔ عالمگیریہ وغیرہ میں ہے کہ اگر کسی بلدہ میں صرف ایک ہی عالم ہو جو مسئلہ مسائل بتاتا ہو اور اس کے جہاد میں چلے جانے سے یہ اندیشہ ہو کہ پھر کوئی مسئلے بتانے والا نہ رہے گا تو ایسے شخص کو جہاد میں جانا جائز نہیں۔
علماء کو چاہیے کہ وہ اپنا کام کریں کیونکہ اگر سپاہی کا کام وائسرائے کرے تو پھر وائسرائے کا کام کون کرے۔ ایک بارشاہ جہاں بادشاہ کے پاس مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی ایک دیوار کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ یکایک دیوار کے گرنے کے آثار معلوم ہوئے‘ مولانا یہ دیکھتے ہی فوراً ہٹ گئے اور شاہ جہاں اپنے شاہانہ وقار سے اُٹھے اس پر شاہ جہاں نے ان سے شکایت کی کہ آپ کو اپنی جان کی میری جان سے زیادہ فکرہوئی۔ انہوں نے صاف کہا کہ واقعی میری جان تمہاری جان سے زیادہ قیمتی ہے کیونکہ اگر میں نہ ہوں گا تو میرا کام کون کرے گا اور اگر تم نہ ہو گے تو تمہارے بیٹے عالمگیر اور دارا شکوہ موجود ہیں وہ سلطنت کا کام سنبھال لیں گے اھ۔ پھر فرمایا کہ اس کا بہت افسوس ہوتا ہے کہ اپنی ہی جماعت میں افتراق ہوگیا ہے۔
اگرحضرت مولانا گنگوہیؒ رہتے تو افتراق نہ ہوتا وہ جو فرماتے اسی پر سب کا اتفاق ہوجاتا۔ رہی یہ بات کہ وہ کیا فرماتے تو ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ وہ یوں کہتے کہ اپنا کام کرو۔ علماء کے لیے تو اس زمانہ میں یہی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بقول حضرت مولانا گنگوہیؒ بس مٹی کا مادہ بنا بیٹھا رہے۔ یہ محاورہ میں نے مولانا ہی سے سنا ہے۔
علماء کی تو عزت جس کی ضرورت ابقاء دین میں ہے‘ گھر بیٹھنے ہی میں ہے اب اس کو اگر کوئی کم ہمتی پر محمول کرے تو اس کو اختیار ہے‘ میں اس میں نزاع نہیں کرتا‘ اچھا بھائی ہمت کرو۔ جب میں کان پور کے مدرسہ جامع العلوم میں تھا تو اس زمانہ میں ایک متمول رئیس کان پور آئے۔ وہاں کے جتنے مدرسے تھے ان سب کے مہتمم اور مدرسین اپنے اپنے طلبہ کو لے کر چندہ کی غرض سے ان رئیس کے استقبال کے لیے اسٹیشن پہنچے‘ مجھ سے بھی کہا گیا لیکن میں نے صاف انکارکردیا کہ میں تو اپنے مدرسہ سے ایک چڑیا کے بچہ کو بھی نہ جانے دوں گا۔ میرے نزدیک مال سے زیادہ عزت ہے اور اس صورت میں عزت تو یقینا برباد ہوگی اور مال کا ملنا محض محتمل ہے۔ ممکن ہے کہ مل جائے اور ممکن ہے کہ نہ ملے اوردوسری صورت میں عزت تو یقیناً محفوظ ہے چاہے مال ملے چاہے نہ ملے۔
غرض میں نے تو اپنے مدرسہ میں سے کسی کو نہیں جانے دیا۔ دوسرے مدرسہ والے گئے اور اپنی اپنی ضرورتیں ظاہر کیں لیکن انہوں نے سب کی درخواستیں سن کر کہا کہ میں نے سنا ہے کہ یہاں ایک مدرسہ جامع العلوم بھی ہے اور اس کا کوئی ذمہ دار نہیںا س کے لیے میں دو سو روپیہ سال مقرر کرتا ہوں۔ لیجئے اور سب کو تو جواب دے دیا اور ہمارے مدرسہ کے لیے دو سو روپیہ سال مقرر کردیئے پھر دو سو روپیہ سال برابر آتے رہے۔ جب ان رئیس کا انتقال ہوگیا تو میں نے ان کے ورثاء کو اس چندہ کے قائم رکھنے کے لیے نہیں لکھا۔ اہل مدرسہ نے کہا بھی کہ لکھ دیناچاہیے لیکن میں نے کہا کہ یہ بے عزتی کی بات ہے۔ چنانچہ نہ یہاں سے لکھا گیا نہ وہاں سے پھرکچھ آیا۔ میں تو علماء کے لیے اینٹھ مروڑ ہی کو اچھا سمجھتا ہوں تواضع تو درویشوں کو کرنی چاہیے کیونکہ اس سے دین کی ذلت نہیں ہوتی وہ تو ان کی خوبی سمجھی جاتی ہے لیکن اگر علماء ایسی تواضع اختیار کریں تو اس سے دین کی ذلت ہوتی ہے لوگ انہیں ذلیل سمجھنے لگتے ہیں۔(ملفوظات حکیم الامت جلد نمبر ۱۰)

Most Viewed Posts

Latest Posts

تقلید کا دور کبھی ختم نہیں ہو سکتا

تقلید کا دور کبھی ختم نہیں ہو سکتا حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔۔’’اجتہاد فی الدین کا دور ختم ہو چکا توہو جائے مگر اس کی تقلید کا دور کبھی ختم نہیں ہو سکتا‘ تقلید ہر اجتہاد کی دوامی رہے گی خواہ وہ موجودہ ہو یا منقضی شدہ کیونکہ...

read more

طریق عمل

طریق عمل حقیقت یہ ہے کہ لوگ کام نہ کرنے کے لیے اس لچر اور لوچ عذر کو حیلہ بناتے ہیں ورنہ ہمیشہ اطباء میں اختلاف ہوتا ہے وکلاء کی رائے میں اختلاف ہوتا ہے مگر کوئی شخص علاج کرانا نہیں چھوڑتا مقدمہ لڑانے سے نہیں رکتا پھر کیا مصیبت ہے کہ دینی امور میں اختلاف علماء کو حیلہ...

read more

اہل علم کی بے ادبی کا وبال

اہل علم کی بے ادبی کا وبال مذکورہ بالا سطور سے جب یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ اہل علم کا آپس میں اختلاف امر ناگزیر ہے پھر اہل علم کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کرنا کتنی سخت محرومی کی بات ہے حالانکہ اتباع کا منصب یہ تھا کہ علمائے حق میں سے جس سے عقیدت ہو اور اس کا عالم...

read more