حضرات غیر مقلدین میں تدین کم ہے
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ غیر مقلدی بھی عجیب چیز ہے کثرت سے ان لوگوں میں تدین بہت کم دیکھا اورعامل بالحدیث ہونے کا دعویٰ ہی دعویٰ ہے۔ عملی صورت میں نہایت ہی پیچھے ہیں۔ احتیاط کا تو ان میں نام ونشان نہیں۔ بس گھر میں بیٹھے ہوئے اسے بدعتی کہہ دیا اسے مشرک کہہ دیا اور خود اپنی حالت نہیں دیکھتے کہ ہم کیا کررہے ہیں۔ میں نے استواء علی العرش کے مسئلہ کو تفسیر بیان القرآن میں اس طرح ترتیب دیا تھا کہ متن میں تو متاخرین کے قول کو رکھا تھا اور حاشیہ پر متقدمین کے قول کو اور متاخرین کے قول کو متن میں رکھنے کی بجز سہولت فہم عوام کے کوئی خاص وجہ نہ تھی لیکن یہ کیا معلوم تھا کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو ہر وقت اعتراض ہی کیلئے تیار رہتے ہیں۔
ایک غیر مقلد صاحب نے عنایت فرما کر اس طرف توجہ فرمائی اور اپنے خاص جذبات کا ثبوت دیا۔ اگر حدود کے اندر مشورہ دیتے تو میں قبول کرلیتا۔ لیکن متاخرین کے طرز اور مسلک کو اوران کے قول کو سراسر جہل اور اعتزال بتلایا۔ محض گستاخی اوربے باکی ہے اس لئے مجھ کوواقعی ناگوار ہوا۔ مگر میں نے پھر بھی ان کی بلکہ انصاف کی رعایت سے متقدمین کا قول متن میں رکھ دیا اور متاخرین کا قول حاشیہ میں کردیا مگر یہ پھر بھی راضی نہیں ہوئے بلکہ ان بزرگ نے متاخرین کے مسلک کا تو ابطال کیا اور سلف کا مسلک جو بیان کیا تو بالکل مجسمہ اور شبہ کے طرز پر اور مجھ سے بھی اسی پر اصرار کیا۔ یہ ان معترضین کا علم ہے۔ یہ قابلیت ہے یہ دین ہے اور پھر علمی مبحث میں قدم۔
ایک دفعہ مجھ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ ابن تیمیہ اور ابن القیم کی تصانیف دیکھا کریں۔ میں نے کہا تم نے تو دیکھی ہیں۔ تمہارے اندر بڑی شان تحقیق پیدا ہوگئی۔ میں ہمیشہ ایسے مباحث میں پڑنے سے بچا اور یہی مسلک اپنے بزرگوں کا رہا مگر ضرورت کوکیا کروں جس وقت یہ بحث لکھ رہا تھا تو ہر جاہل شخص کو دیکھ کر رشک ہوتا تھا کہ کاش میں بھی جاہل ہوتا۔ تو اس مبحث پر ذہن نہ چلتا تو اس وقت جاہل ہونے کی تمنا کرتا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی فضل ایزدی نے دستگیری فرمائی اور یہ خیال آیا کہ یہ تمنا بھی تو علم ہی کی بدولت ہوئی تو جہل کو کسی حالت میں علم پر ترجیح نہیں۔
تب جاکر قلب کوسکون ہوا۔ ایسے دقائق میں صوفیہ کی توجیہ سب میں زیادہ اقرب دیکھی گئیں۔ ان سے بڑی تشفی ہوئی مگر یہ معترض صاحب صوفیہ ہی کے مخالف ہیں۔ پھر راہ کہاں‘ نیز اس میں بھی اختلاف ہے کہ استوء علی العرش صفت ہے یا فعل۔ ان اہل ظاہر میں مشہور یہ ہے کہ صفت ہے لیکن اگر صفت ہے تو عرش حادث ہے اور صفت ہے قدیم تو قبل حدوث عرش جواستواء علی العرش کی صورت تھی وہی اب بھی تسلیم کرلو ورنہ صفت میں تغیر لازم آئے گا۔یہ عجیب وغریب الزامی حجت ہے۔
جو حق تعالیٰ نے ذہن میں ڈالی اور اس مبحث میں لکھنے کے وقت جو اقوال نظر سے گزرے انکے تزاحم سے ذہن میںعجب کشمکش ہوئی۔ مگر خیر جس طرح سے ہو سکا اس کے متعلق ایک رسالہ تیار ہوگیا جس کا نام تمہید الفرش فی تحدید العرش ہے ۔
اور اصل تو یہ ہے کہ ذات وصفات کی کنہ کون معلوم کرسکتا ہے اس لئے آگے بڑھتے ہوئے بھی ڈر معلوم ہوتا ہے اور واقعی کیا کوئی ادراک کرسکتا ہے۔ اسی لئے منع فرمادیا کہ ذات صفات کی بحث میں نہ پڑنا چاہئے یہی امر معقول ہے اس لئے کہ بحث سے بھی کوئی حقیقت معلوم نہیں کرسکتا جیسے اندھے مادر زاد کو کہاجائے کہ لون کی حقیقت میں خوض نہ کر۔ منع کرنا یقینا معقول ہے اس لئے کہ وہ اس کی حقیقت کو باوجود خوض کرنے کے بھی نہیں سمجھ سکتا۔(ملفوظات حکیم الامت جلد نمبر ۶)
