حقیقت علم
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔
۔’’انسان‘ انسان جب بنتا ہے جب اس کے اندرعلم آ جائے اور علم بھی وہ ہو کہ وہ محض دانستن کا نام علم نہیں محض جان لینے کا نام علم نہیں اس لئے کہ تھوڑا بہت علم جانوروں کو بھی حاصل ہے۔ اتنا علم اگر انسان میں آ جائے تو اتنا علم حیوانیت کیلئے بھی ہے۔ حقیقی علم وہ ہے کہ جس سے انسان حلال و حرام کو پہچانے اورجائز و ناجائز میں فرق کرے۔ یہ کام انسانی قلب کا ہے‘ ہاتھ اور پیر کا نہیں۔‘‘۔
’’علم کی حقیقت ہی در حقیقت تمیز ہے۔ یعنی دوچیزوں کو ممتاز کئے رکھنا‘ اگر دو چیزیں رل مل جائیں توکہیں گے کہ اس شخص کو علم نہیں ۔ اگر علم ہوتا تو دوچیزوں کو الگ الگ دیکھتااور دونوں چیزوں کو الگ الگ سمجھتا تو امتیاز پیدا کر دینا یہ علم کا مرتبہ ہے اور علم میں کمال تقویٰ سے آتا ہے جتنا تقویٰ و طہارت ہو گا اتنا علم میں کمال پیدا ہو جائے گا اس لئے قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ :۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًاo
اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرنے لگو اور متقی بن جاؤ تو اللہ تم میں فرقان پیدا کر دے گا۔ (سورۃ انفال)
’’فرقان‘‘ کے معنی اس اندرونی قوت کے ہیں جو حق و باطل میں امتیاز پیدا کر دے‘ جب یہ تمیز پیدا ہو جائے تو کہا جائے گا کہ تقویٰ کامل ہو گیا۔ تقویٰ کا اثر یہ ہے کہ انسان کا دل خود بھلائی اوربرائی میں امتیازکرنے لگتا ہے۔‘۔‘
(ماخوذ از خطبات حکیم الاسلام)
