بغداد میں کیا ہوا؟

بغداد میں کیا ہوا؟

آپ جانتے ہیں کہ بغداد مسلمانوں کا ایک بڑا علمی مرکز رہا ہے وہاں بڑے بڑے فقہاء اور محدثین پیدا ہوئے۔۔۔۔علم کلام،… علم فقہ،… منطق،… ریاضی… اور کیمیا پر اتنی کتابیں لکھی گئیں کہ کتب خانے بھر گئے، وہاں مسلمانوں کی بڑی مضبوط حکومت قائم تھی۔۔۔۔ لیکن جب مسلمان آپس میں لڑنے لگے اور ٹکڑیوں میں بٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر تاتاریوں کو مسلط کر دیا اور فتنہ تار تار وہ فتنہ ہے جس کا تذکرہ کرتے ہوئے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، ہلاکو خان کی فوج کے ہاتھوں سے بغداد اور اس کے مضافات میں ایک کروڑ چھ لاکھ مسلمان قتل ہوئے، انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا، شاہی کتب خانے کی کتابیں دجلہ میں پھینک دی گئیں۔۔۔۔
کتابیں اس قدر تھیں کہ دجلہ میں ایک بند سا بن گیا اور دجلہ کا پانی کئی دن تک اتنا سیاہ رہا کہ دواتوں میں سیاہی ڈالنے کی ضرورت نہ رہی، کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے دل و دماغ پر تاتاریوں کا اس وقت اتنا رعب چھا گیا تھا کہ اگر ایک تاتاری عورت مسلمان مرد کو بازار میں روک لیتی اور کہہ دیتی تم یہیں ٹھہرو میں گھر سے تلوار لے کر تمہیں قتل کرتی ہوں تو اس مسلمان پر اتنا خوف چھا جاتا کہ اسے وہاں سے ایک قدم اٹھانے کی جرأت نہ ہوتی اور عورت اسے قتل کر دیتی۔۔۔۔
آپ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہ ذلت کیوں اٹھانی پڑی؟ آپس میں ٹکرانے اور ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے کی وجہ سے اور جو اصل کام اللہ تبارک وتعالیٰ نے خیر الامت ہونے کی وجہ سے اس امت کے ذمہ لگایا تھا، اس کام سے غفلت برتنے کی وجہ سے نہ کرنے کے کاموں میں یہ امت لگ گئی، بغداد کے خلیفہ نے اپنے حریف خوارزم شاہ کو کمزور کرنے کے لیے تاتاریوں کو خود مشورہ دیا کہ خوارزم شاہ پر حملہ کرو تاتاریوں نے خوارزم شاہ کی سلطنت تو ختم کر دی مگر اس کے بعد بغداد کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔۔۔۔ (ندائے منبر و محراب: ۱/۱۵۲ تا ۱۶۱)
اندازہ لگائیے ہمارے بھول پن اور سادگی کا کہ ہمیں اس بات کی تو فکر ہے کہ کوئی شخص اولیٰ کو چھوڑ کر غیر اولیٰ کام نہ کرے۔۔۔۔
شافعیت کو چھوڑ کر حنفی نہ بن جائے، حنفیت کو چھوڑ کر شافعی نہ بن جائے۔۔۔۔
رفع یدین کا انکار نہ کر دے یا اقرار نہ کرلے۔۔۔۔
تراویح بیس نہ پڑھ لے۔۔۔۔اذان بغیر صلوٰۃ کے نہ کہہ دے۔۔۔۔
لیکن اگر کوئی نماز ہی چھوڑ دے۔۔۔۔وہ نہ بیس پڑھے، نہ آٹھ
وہ اذان ہی کا انکار کر دے۔۔۔۔وہ ملحد بن جائے۔۔۔۔
وہ سوشلسٹ ہو جائے۔۔۔۔وہ قادیانیت کی گود میں چلا جائے۔۔۔۔
وہ دشمنانِ صحابہ کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہو جائے۔۔۔۔
وہ صیہونیوں کے جال میں پھنس جائے۔۔۔۔
جب کہ ان اختلافات کا حال تو یہ ہے کہ اکثر اختلافات راجح اور غیر راجح، افضل اور غیر افضل کے ہوتے ہیں، ان مباحثوں اور مناظروں میں حد سے زیادہ مصروفیت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ فرقے اور گروہ جن کے عقائد صراحۃً کفر یہ ہیں اور جو دن رات امت کو گمراہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں، ان کے خلاف ریسرچ اور مطالعہ کا نہ تو طلبہ کو موقع ملتا ہے اور نہ ہی اس سے انہیں کوئی دلچسپی ہوتی ہے گویا ہم نے ان گمراہ فرقوں اور جماعتوں کو گمراہی پھیلانے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔۔۔۔
ہمارے چند دوست تھے، وہ تبلیغی جماعت کے ساتھ ایک جگہ گئے، گشت پر نکلے تو چند مسلمانوں کو مسجد میں آنے کی دعوت دی، رمضان المبارک کا مہینہ تھا، غالباً ان ساتھیوں نے اپنے خطیب سے آٹھ اور بیس رکعت تراویح کا جھگڑا سنا ہو گا، انہوں نے ان تبلیغی دوستوں سے کہا:’’ہم مسجد میں تو بعد میں چلیں گے پہلے ہمارے ساتھ اس مسئلہ پر بحث کرو کہ تراویح آٹھ رکعت ہیں یا بیس۔۔۔۔‘‘ ان دوستوں نے بہت پیارا جواب دیا۔۔۔۔ کہنے لگے:۔
۔’’بھائی جو بیس رکعتیں پڑھتے ہیں، وہ کچھ زیادہ پڑھ لیتے ہیںا ور جو آٹھ رکعتیں پڑھتے ہیں وہ کچھ کم پڑھ لیتے ہیں، لیکن پڑھتے دونوں ہیں ہم آپس میں الجھنے اور وقت ضائع کرنے کے بجائے کیوں نہ ان بے نمازوں کے پاس چلیں جو نہ آٹھ پڑھتے ہیں نہ بیس پڑھتے ہیں، وہ تو سرے سے نماز ہی سے محروم ہیں۔۔۔۔‘‘۔

Most Viewed Posts

Latest Posts

اختلاف کی دو قسمیں

اختلاف کی دو قسمیں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔علماء کرام میں اگر اختلاف ہو جائے تو اختلاف کی حد تک وہ مضر نہیں جب کہ اختلاف حجت پر مبنی ہو ظاہر ہے کہ ایسی حجتی اختلافات میں جو فرو عیاتی ہوں ایک قدرمشترک ضرور ہوتا ہے جس پر فریقین...

read more

اختلاف کا اُصولی حل

اختلاف کا اُصولی حل محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالرئوف صاحب اپنے رسالہ ’’اِسلامی بینکاری‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:مخلص و محقق اور معتبر اکابر علمائے کرام کے درمیان کسی مسئلہ کی تحقیق کے سلسلے میں جب اختلاف ہوجائے تو بزرگ اکابر حضرات رحمہم اﷲ تعالیٰ کے ارشادات میں مکمل...

read more

ایک ڈاکو پیر بن گیا

ایک ڈاکو پیر بن گیا قطب الارشادحضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ اپنے مریدین سے فرمانے لگے تم کہاں میرے پیچھے لگ گئے۔۔۔۔ میرا حال تو اس پیر جیسا ہے جو حقیقت میں ایک ڈاکو تھا۔۔۔۔ اس ڈاکو نے جب یہ دیکھا کہ لوگ بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ پیروں کے پاس...

read more