اُمت مسلمہ میں اتحاد کی اہمیت
بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر حاضری کے وقت جو گو سالہ پرستی کا فتنہ پھوٹا اور ان کے تین فرقے ہو گئے، حضرت ہارون علیہ السلام نے سب کو دعوت حق دی، مگر ان میں سے کسی فرقہ سے کلی اجتناب اور بیزاری و علیحدگی کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آنے تک اعلان نہیں کیا۔۔۔۔
اس پر جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ناراض ہوئے تو انہوں نے یہی عذر پیش کیا کہ میں تشدد کرتا تو بنی اسرائیل کے ٹکڑے ہو جاتے ان میں تفرقہ پھیل جاتا
اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ (طہ:۹۴)
یعنی میں نے اس لیے کسی بھی فرقہ سے علیحدگی اور بیزاری کا شدت سے اظہار نہیں کیا کہ کہیں آپ واپس آ کر مجھے یہ الزام نہ دیں کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ پیدا کر دیا اور میری ہدایات کی پابندی نہیں کی۔۔۔۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی ان کے عذر کو غلط قرار نہیں دیا، بلکہ صحیح تسلیم کر کے ان کے لیے دعاء و استغفار کیا۔۔۔۔ اس سے یہ ہدایت نکلتی ہے کہ مسلمانوں میں تفرقہ سے بچنے کے لیے وقتی طور پر اگر کسی برائی کے معاملے میں نرمی برتی جائے تو درست ہے۔۔۔۔
۔’’وَاﷲُ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی اَعْلَمُ۔۔۔۔‘‘ (معارف القرآن: ۶/۱۰۹)
