نزاع سے بچنے کے لیے صبر ضروری ہے

نزاع سے بچنے کے لیے صبر ضروری ہے

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْآ ط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (الانفال: ۴۶)
اس میں مضر پہلوئوں پر تنبیہ کر کے ان سے بچنے کی ہدایت ہے اور وہ مضر پہلو جو جنگ کی کامیابی میں مانع ہوتا ہے باہمی نزاع و اختلاف ہے۔۔۔۔ اس لیے فرمایا: ’’وَلَا تَنَازَعُوْا‘‘ یعنی آپس میں نزاع اور کشاکش نہ کرو۔۔۔۔ ورنہ تم میں بزدلی پھیل جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔۔۔۔اس میں باہمی نزاع کے دو نتیجے بیان کیے گئے ہیں:۔
ایک یہ کہ تم ذاتی طور پر کمزور اور بزدل ہو جائو گے۔۔۔۔
دوسرا یہ کہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، دشمن کی نظروں میں حقیر ہو جائو گے۔۔۔۔
باہمی کشاکش اور نزاع سے دوسروں کی نظر میں حقیر ہو جانا تو بدیہی امر ہے لیکن خود اپنی قوت پر اس کا یہ اثر پڑتا ہے کہ اس میں کمزوری اور بزدلی آ جاتی ہے۔۔۔۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ باہمی اتحاد و اعتماد کی صورت میں ہر ایک انسان کے ساتھ پوری جماعت کی طاقت لگی ہوئی ہوتی ہے۔۔۔۔
اس لیے ایک آدمی اپنے اندر بقدر اپنی جماعت کے قوت محسوس کرتا ہے اور جب باہمی اتحاد و اعتماد نہ رہا تو اس کی اکیلی قوت رہ گئی ہے۔۔۔۔ وہ ظاہر ہے جنگ و قتال کے میدان میں کوئی چیز نہیں۔۔۔۔
اس کے بعد ارشاد فرمایا ’’وَاصْبِرُوْا‘‘ یعنی صبرکو لازم پکڑو۔۔۔۔
سیاق کلام سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نزاع اور جھگڑوں سے بچنے کا کامیاب نسخہ بتلایا گیا ہے اور بیان اس کا یہ ہے کہ کوئی جماعت کتنی ہی متحد الخیال اور متحد المقصد ہو مگر افراد انسانی کی طبعی خصوصیات اور ضروریات مختلف ہوا کرتی ہیں۔
نیز کسی مقصد کے حصول و کوشش میں اہل عقل و تجربہ کاروں کا اختلاف بھی ناگزیر ہے۔۔۔۔ اس لیے دوسروں کے ساتھ چلنے اور ان کو ساتھ رکھنے کے لیے اس کے سواکوئی چارہ نہیں کہ آدمی خلافِ طبع امور پر صبر کرنے اور نظر انداز کرنے کا عادی ہو اور اپنی رائے پر اتنا جمائو اور اصرار نہ ہو کہ اس کو قبول نہ کیا جائے تو لڑ بیٹھے اور اسی صفت کا دوسرا نام صبر ہے۔۔۔۔
آج کل یہ تو ہر شخص جانتا اور کہتا ہے کہ آپس کا نزاع بہت بری چیز ہے مگر اس سے بچنے کا جو گر ہے وہ یہ کہ آدمی خلاف طبع امور پر صبر کرنے کا خوگر بنے۔۔۔۔ اپنی بات منوانے اور چلانے کی فکر میں نہ پڑے۔۔۔۔ یہ بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔۔۔۔
اسی لیے اتحاد و اتفاق کے سارے وعظ و پند بے سود ہو کر رہ جاتے ہیں۔۔۔۔ آدمی کو دوسروں سے اپنی بات منوانے پر تو قدرت نہیں ہوتی مگر خود دوسرے کی بات مان لینا اور اس کو نہ مانے تو کم از کم نزاع سے بچنے کے لئے سکوت کر لینا تو بہرحال اختیار میں ہے۔۔۔۔ اس لیے قرآن کریم نے نزاع سے بچنے کی ہدایت کیساتھ ساتھ صبر کی تلقین بھی ہر فرد جماعت کو کر دی تاکہ نزاع سے بچنا عملی دنیا میں آسان ہو جائے۔۔۔۔
(معارف القرآن : ۴/۲۵۳، الانفال: ۴۶)
یاد رکھنے کی بات ہے کہ اختلاف کو ختم کر کے اتحاد قائم نہیں ہوتا۔۔۔۔ اتحاد ہمیشہ صرف اس وقت ہوتا ہے جب کہ کچھ لوگ اپنے اختلاف کو صبر کے خانے میں ڈالنے پر راضی ہو جائیں۔۔۔۔ کسی سے اختلاف، جھگڑا ختم کرنا چاہیں تو صبر، حکمت اور اعراض کا سہارا لینا ہو گا۔۔۔۔ مفاد اور وقتی جذبات سے اوپر اٹھ کر قربانی دینی ہو گی۔۔۔۔
اتحاد کی خاطر ہر ناگواری کو گوارہ کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔ اختلافات اور جھگڑوں سے بچنے کے لیے ہر امام اورمعلم کو اپنے ساتھ ایک مجازی قبرستان لے کر چلنا ہو گا جس میں جاہلوں کی جاہلانہ باتیں، طعن و تشنیع، شریر کے شر اور فتین کے فتنے کو، حاسد مقتدی کے حسد کو دفنا دینا ہو گا اور دفنا کر بھول جانا ہو گا نہ اس کا تیجہ، نہ چالیسواں منانا ہو گا کہ فلاں مقتدی نے فلاں وقت مجھے یہ بات کہی تھی یا فلاں کو میرے بارے میں یہ کہا تھا، بلکہ ان کو اس طرح دفن کر دیں کہ دفن کا اعلان بھی نہ ہو۔۔۔۔
امام کو چاہیے کہ اپنی میز پر یہ بات لکھ لے:۔
آپس میں اختلافات دشمن کا ہتھیار ہے، آپس میں لڑنا گویا اپنا دشمن آپ بننا ہے، یہ اس تخریبی کام کو خود اپنے ہاتھوں انجام دینا ہے جس کو دشمن اپنے ہاتھوں سے انجام دینا چاہتا ہے۔۔۔۔دوسروں سے نہ لڑنے کے لیے اپنے آپ سے لڑنا پڑتا ہے، چونکہ لوگ اپنے آپ سے لڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں اس لیے دوسروں سے ان کی لڑائی بھی ختم نہیں ہوتی۔۔۔۔
اتحاد اور اتفاق کی قیمت اتنی سستی اور عام ہے کہ ہر شخص، مرد ہو یا عورت، عالم ہو یا جاہل اتحاد کو خرید سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو دبائے، شکایت اور تلخی کو برداشت کر لے، اپنے مفاد کی بربادی پر راضی ہو جائے۔
دوسروں کی ترقی پر خوش ہونے کا حوصلہ پیدا کرنا سیکھ لے، گھمنڈ اور کبر کے جذبات کو تواضع کے جذبات میں تبدیل کر لے۔
آدمی اگر ایسا کر لے کہ وہ اتحاد کو توڑنے والے جذبات کو اپنے سینے میں دبالے تو وہ معاشرے کے اندر اتحاد کو باقی رکھے گا۔۔۔۔
اگر وہ ان جذبات کو ظاہر ہونے کے لیے کھلا چھوڑ دے گا اور نفس امارہ کی اطاعت کرتے ہوئے جذبات کو آزادی دے گا تو گھر سے لے کر مسجد، مدرسہ، بازار اور پورے معاشرے کا اتحاد برباد ہو جائے گا۔۔۔۔ (راز حیات: ص۲۴۱)
لہٰذا ہم ائمہ کو چاہیے کہ خود بھی اپنے آپس کے نزاع اور جھگڑوں سے بچیں اور اپنے مقتدیوں اور عوام الناس کو بھی اس بات کی تلقین کریں کہ سارے مسلمان آپس میں اخوت و وحدت اور محبت پیدا کریں اور ان کو یہ مشہور دعا سکھلائیں:۔
۔’’اَللّٰھُمَّ اَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِنَا وَاَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا وَاھْدِنَا سُبُلَ السَّلَامِ وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّوْرِ۔۔۔۔‘‘ (سنن ابی داؤد)
ترجمہ: ’’اے اللہ! تو ہمارے دلوںمیں محبت پیدا کر دے اور ہماری آپس کی رنجشوں کی اصلاح فرما دے اور ہم کو سلامتی کے راستے دکھا دے اور نور عطا فرما کر تاریکیوں سے نجات دے۔۔۔۔‘‘۔

Most Viewed Posts

Latest Posts

اختلاف کی دو قسمیں

اختلاف کی دو قسمیں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔علماء کرام میں اگر اختلاف ہو جائے تو اختلاف کی حد تک وہ مضر نہیں جب کہ اختلاف حجت پر مبنی ہو ظاہر ہے کہ ایسی حجتی اختلافات میں جو فرو عیاتی ہوں ایک قدرمشترک ضرور ہوتا ہے جس پر فریقین...

read more

اختلاف کا اُصولی حل

اختلاف کا اُصولی حل محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالرئوف صاحب اپنے رسالہ ’’اِسلامی بینکاری‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:مخلص و محقق اور معتبر اکابر علمائے کرام کے درمیان کسی مسئلہ کی تحقیق کے سلسلے میں جب اختلاف ہوجائے تو بزرگ اکابر حضرات رحمہم اﷲ تعالیٰ کے ارشادات میں مکمل...

read more

ایک ڈاکو پیر بن گیا

ایک ڈاکو پیر بن گیا قطب الارشادحضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ اپنے مریدین سے فرمانے لگے تم کہاں میرے پیچھے لگ گئے۔۔۔۔ میرا حال تو اس پیر جیسا ہے جو حقیقت میں ایک ڈاکو تھا۔۔۔۔ اس ڈاکو نے جب یہ دیکھا کہ لوگ بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ پیروں کے پاس...

read more