سد ذرائع اور اس کی امثلہ

سد ذرائع اور اس کی امثلہ

شریعت میں احکام کی دو قسمیں ہیں۔۔۔۔ مامورات یعنی کرنے کی چیزیں اس کے لئے آداب رکھے گئے کہ انہیں کرو گے تب جاکر مامورات پر عمل کرنا نصیب ہوگا اور ایک منہیات ہیں روکنے کی چیزوں میں مکروہات رکھے گئے کہ مکروہات سے بچو گے تب حرام سے بچنا نصیب ہوگا اور اگر مکروہات میں ڈوبے رہو گے تو ایک نہ ایک دن حرام میں پڑ جائو گے اور اس چیز کو شریعت کی اصطلاح میں سدذرائع کہا جاتا ہے۔۔۔۔ یعنی ذرائع اور وسائل کو روک دو تاکہ مقاصد تک آدمی نہ پہنچ سکے تو منہی اور ممنوع چیزوں میں وسائل سے بچانا تاکہ اصل ممنوع سے بچ جائے اور واجبات میں وسائل کو اختیار کرنا تاکہ فرائض پر عمل نصیب ہو اسے کہتے ہیں سد ذرائع۔۔۔۔مثلاً حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جس چیز کے زیادہ حصہ میں نشہ ہو اس کا کم حصہ بھی ناجائز ہے۔۔۔۔
شراب کے ایک گھونٹ میں نشہ ہے ایک قطرہ میں تو نہیں لیکن قطرہ پینا بھی اسی طرح حرام ہے۔۔۔۔ جس طرح گھونٹ پینا حرام ہے حالانکہ حرمت تو سکر کی وجہ سے ہے اور ایک قطرہ میں ظاہر ہے کہ سکر نہیں مگر سد ذرائع کیلئے ایسا کیا گیا کہ جو ایک قطرہ شراب پی لے گا۔۔۔۔ کل کو ایک گھونٹ پئے گا ۔۔۔۔ پرسوں پورا جام پئے گا اور شرابی بن جائے گا تو شرابی بننے سے بچانے کیلئے قطرہ کو حرام کیاگیا تاکہ وہاں تک پہنچنے نہ پائے جیساکہ حدیث میں ہے۔۔۔۔جو کسی جادوگر یا کاہن کے پاس گیا اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے ساتھ کفر کیا۔۔۔۔
حالانکہ جادوگر کے پاس جانے سے توحید و رسالت اور قیامت کا انکار نہیں ہوتا کوئی عقائد کی تبدیلی نہیں ہوتی مگر پھر بھی فرماتے ہیں کہ اس نے شریعت اسلام کے ساتھ کفر کیا۔۔۔۔ اس لئے کہ آج جادوگر کے پاس گیا تو سحر کی برائی اس کے دل سے نکل گئی۔۔۔۔ تو کل کو اس کا سحر سیکھے گا اور پرسوں پورا جادوگر بن جائے گا تو اسی جادو کے کفر سے بچانے کیلئے جادوگر کے پاس جانے سے ممانعت کردی گئی۔۔۔۔
اس کو کہتے ہیں سد ذرائع۔۔۔۔ اصل مقصود کو کبیرہ گناہ کہتے ہیں اور وسائل کو صغیرہ گناہ تو وسائل سے روکتے ہیں تاکہ کبیرہ تک نہ پہنچنے پائے۔۔۔۔
مثلاً چوری کرنا گناہ کبیرہ ہے کہ کسی کے مال معصوم کو آدمی بلا اسی کی مرضی کے اٹھا لائے لیکن یہ تو ہے اصل خرابی مگر اس کی وجہ سے کسی کے مال کو تاک جھانک کرنا‘ نقب لگانا‘ دیوار سے جھانکنا یہ سب صغائر ہیں اور اسی لئے ناجائز ہیں کہ جب یہ کرلے گا تو ایک دن اصل بھی کر بیٹھے گا گو اپنی ذات سے کسی کے سامان کو دیکھنا‘ کسی کی دیوار کو تاک لگانا ممنوع چیز نہیں مگر اس لئے ممنوع ہوئے کہ یہ چوری کا وسیلہ بنتے ہیں یا مثلاً زنا کے سلسلہ میں اصل ممنوع وہ فعل (حرام) ہے ۔۔۔۔
مگر اس سے بچانے کیلئے نامحرم عورت سے تخلیہ کرنا‘ اس پر نگاہ ڈالنا اس کی آواز پر کان دھرنا‘ ہاتھ سے چھونا سب ممنوع قرار دیا گیا۔۔۔۔ اس لئے کہ یہ چیزیں اصل حرام فعل کے ذرائع بنتی ہیں تو شریعت نے چاہا کہ گناہ سے بچنے کیلئے دواعی سے بھی بچو۔۔۔۔ یہ سب شریعت کے آداب ہیں۔۔۔۔

Most Viewed Posts

Latest Posts

اختلاف کی دو قسمیں

اختلاف کی دو قسمیں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔علماء کرام میں اگر اختلاف ہو جائے تو اختلاف کی حد تک وہ مضر نہیں جب کہ اختلاف حجت پر مبنی ہو ظاہر ہے کہ ایسی حجتی اختلافات میں جو فرو عیاتی ہوں ایک قدرمشترک ضرور ہوتا ہے جس پر فریقین...

read more

اختلاف کا اُصولی حل

اختلاف کا اُصولی حل محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالرئوف صاحب اپنے رسالہ ’’اِسلامی بینکاری‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:مخلص و محقق اور معتبر اکابر علمائے کرام کے درمیان کسی مسئلہ کی تحقیق کے سلسلے میں جب اختلاف ہوجائے تو بزرگ اکابر حضرات رحمہم اﷲ تعالیٰ کے ارشادات میں مکمل...

read more

ایک ڈاکو پیر بن گیا

ایک ڈاکو پیر بن گیا قطب الارشادحضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ اپنے مریدین سے فرمانے لگے تم کہاں میرے پیچھے لگ گئے۔۔۔۔ میرا حال تو اس پیر جیسا ہے جو حقیقت میں ایک ڈاکو تھا۔۔۔۔ اس ڈاکو نے جب یہ دیکھا کہ لوگ بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ پیروں کے پاس...

read more