ادب میں محتملات کا لحاظ
حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمہ اللہ کا میں نے واقعہ اپنے بزرگوں سے سنا کہ کلیر شریف جب کبھی حاضر ہوتے عرس وغیرہ سے یہ حضرات بچتے تھے کہ بدعات ہیں۔۔۔۔ لیکن بہر حال اللہ والوں کی قبروں پر جاتے تھے استفادہ بھی کرتے تھے۔۔۔۔ کلیر شریف حاضر ہوتے تو کلیر شریف رڑکی سے پانچ چھ میل کے فاصلہ پر ہے۔۔۔۔ نہر کے کنارے کنارے راستہ جاتا ہے تو چلتے وقت جوتے نکال دیتے تھے ننگے پیر چھ میل کا فاصلہ طے کرتے۔۔۔۔ یہ محض ادب کا غلبہ حال تھا۔۔۔۔ آپ اگر پوچھیں کہ کیا شرعاً ایسا کرنا ضروری تھا؟ تو شرعاً تو ضروری نہیں ہے کسی جگہ حکم نہیں ہے کہ جائو تو ننگے پیر جایا کرو۔۔۔۔ لیکن ادب جب غلبہ حال کے درجہ میں آتا ہے تو ادب و تادب کے وہ وہ محتملات سامنے آتے ہیں کہ ظواہر شریعت میں نشان بھی نہیں ہوتا مگر قلب شہادت دیتا ہے کہ یہ بھی ادب ہے اور اس پر عمل ضروری ہے۔۔۔۔ وہ قانونی عمل نہیں ہوتا وہ اخلاقی عمل ہوتا ہے قانون کی رو سے اسے واجب یا مستحب نہیں کہا جاسکتا لیکن قلب اور محبت کے قانون کے لحاظ سے وہ واجب ہوتا ہے۔۔۔۔
حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمہ اللہ جب ہجرت فرما کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو عمر بھر سیاہ جوتا نہیں پہنا‘ سرخ یا زرد رنگ کا پہنا کرتے تھے فرمایا سیاہ رنگ کا جوتا ممنوع نہیں مگر بیت اللہ کا غلاف سیاہ ہے تو پائوں میں اس رنگ کا جوتا کیسے پہنوں؟ اس ادب کی وجہ سے سیاہ رنگ کا جوتا پہننا چھوڑ دیا پگڑی تو باندھتے سیاہ رنگ کی کہ یہ تو ادب کا مقام ہے مگر قدموں میں نہیں۔۔۔۔
اب اگر آپ یوں کہیں کہ صاحب! کسی روایت کسی حدیث میں تو نہیں آیا تو حدیث میں تو ادب کا حکم آیا ہے لیکن ادب جب رچ کر غلبہ حال کے درجہ میں آجاتا ہے تو بعید سے بعید چیز بھی ادب کے درجہ میں آتی ہو۔۔۔۔ انسان اس کا لحاظ رکھتا ہے اور عمل کرتا ہے۔۔۔۔ جیسے فقہاء نے لکھا ہے کہ بعض چیزیں بڑی محتملات ہوتی ہیں لیکن آداب شرعیہ کے لحاظ سے وہ ضروری قرار پا جاتی ہیں۔۔۔۔
الغرض اس طرح سے یہ آداب سکھائے گئے کہ اس کے بغیر دین کا تحفظ نہیں ہوسکتا۔۔۔۔ اگر دل میں ذرا سا بھی ان چیزوں کیلئے تمسخر استہزاء کا مادہ موجود ہے تو دین اس کا صحیح سالم نہیں ہوسکتا۔۔۔۔ اس واسطے ضروری ہے کہ قلب کے اندر سنجیدگی وقار اور احترام ہو۔۔۔۔ آیات اور روایات کا اور ان شخصیتوں کا جن سے آیات وروایات اور دین کا تعلق ہے جن کا ادب و احترام ضروری ہے جس کے بغیر دین محفوظ نہیں رہ سکتا۔۔۔۔
