امر ہفتم
جناب مودودی صاحب سلف صالحین کی اقتداء واتباع کو ذہنی غلامی کا نام دے کر اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ حالانکہ یہ وہی ذہنی غلامی ہے جس کو قرآن سبیل المومنین قرار دیکر اس کے چھوڑنے والوں کو جہنم رسید کرنے کی دھمکی دیتا ہے اور پھر یہ وہی ذہنی غلامی ہے جس کو قرآن الصراط المستقیم‘ قرار دیکر اس کی ہدایت کی دعا تلقین کرتا ہے اور پھر یہ وہی ذہنی غلامی ہے جس کیلئے مسلمان ناک رگڑ رگڑ کر پانچ وقتہ دعائیں کرتے ہیں۔ کتنی مکروہ اور بھونڈی تعبیر ہے جس راستہ پر مقدسین کے قافلوں کے قافلے گزرہے ہیں اس کی پیروی کو ذہنی غلامی بتایا جائے۔
تم نے اگر اسلامی دور میں ابھرنے والے باطل فرقوں کا مطالعہ کیا ہے تو یہ حقیقت تم پر آشکارا ہوگی کہ ان سب کی بنیاد اسی اناولا غیری پر استوار ہوئی ان سب نے سلف کی ذہنی غلامی عار کی اور اپنی عقل وفہم کے بازوئوں پر تخیلات کے جنگل میں پرواز شروع کردی اور پھر جس کا جدھر منہ اٹھا اسی سمت اڑتا رہا۔
اسلام میں سب سے پہلا فتنہ عبداللہ بن سبا یہودی نے برپا کیا جس کی بنیاد ہی رسول خدا کے سوا کسی انسان کو تنقید سے بالا تر نہ سمجھنے پر تھی پھر اسی سبائیت کے بطن سے فتنہ خوارج نے جنم لیا‘ جو بڑی شوخ چشمی سے کہتے تھے کہ حضرت علیؓ اور دیگر صحابہؓ نے دین کو نہیں سمجھا ہم ان سے بہتر سمجھتے ہیں پھر انہیں بنیادوں پر معتزلہ‘ مرجئہ قدریہ وغیرہ فرقے پیدا ہوئے ان میں سے ہر ایک نے سلف کی پیروی کو ذہنی غلامی تصور کیا‘ فضلوا واضلوا۔ دور حاضر میں جو نئے نئے فرقے پیدا ہوئے۔
ان میں اصول ونظریات کے اختلاف کے باوجود تمہیں یہی قدر مشترک نظر آئے گی سلف صالحین کا مذاق اڑانا‘ ان کے کاموں میں کیڑے نکالنا‘ ان کی حیثیت کو مجروح کرنا‘ ان پر تنقیدی نشتر چلانا اور ان کی پیروی کو رجعت پسندی‘ دقیانوسیت‘ قدامت پرستی‘ ذہنی غلامی جیسے القاب دینا دور جدید کا فیشن ہے۔
