امر ششم
جناب مودودی صاحب کی شستہ بیانی اور قلم کی روانی کا میں بھی معترف ہوں مگر میرا خیال ہے کہ وہ اپنی بلند پروازی میں ایسے الفاظ بھی استعمال فرما جاتے ہیں جو موقع محل کے اعتبار سے بالکل ہی بے معنی ہوں۔
مثلاً یہی تنقید سے بالا تر اور ذہنی غلامی کے الفاظ کولیجئے یہ اپنے سیاق وسباق کے اعتبار سے بالکل مہمل ہیں ۔ غور فرمائیے اگردین اسلام کی ذہنی غلامی کوئی عیب نہیں بلکہ لائق صد فخر ہے تو حاملین اسلام اور سلف صالحین کی پیروی اور ذہنی غلامی کیوں لائق فخر نہیں؟ اور اگر دین اسلام ہم ایسے جاہلوں کی تنقید سے بالاتر ہے تو جن حضرات کے واسطہ سے ہمیں دین پہنچا ان کا علم وفہم تنقید سے بالاتر کیوں نہ ہوگا؟ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی) کا آخر کیا مفہوم ہے؟
ایک طفل مکتب کا تصور کیجئے جو پہلے دن مکتب میں گیا استاذ نے اسے بغدادی قاعدہ شروع کرایا ہو جب استاذ نے اس کو الف‘ ب‘ کہلایا تو اس کے جواب میں وہ صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں کہ حضور! میں چودھویں صدی کا مفکر ہوں۔ آپ کی ذہنی غلامی کیوں قبول کروں‘ تو اس صاحبزادے کی تعلیم جس قدر مکمل ہوگی وہ محتاج بیان نہیں۔ ہم لوگ صحابہ کرامؓ اور دیگر سلف صالحین کے مقابلہ میں وہ حیثیت بھی نہیں رکھتے جو اس ماڈرن صاحبزادے کی استاذ کے مقابلہ میں تھی‘ ہمیں دین کی ابجد انہی بزرگوں کے ذریعہ حاصل ہوئی ہے ان کی ذہنی غلامی سے انحراف کا نتیجہ بھی اس صاحبزادے سے مختلف نہیں ہوگا۔ خدا مجھے معاف فرمائے میرا خیال یہ ہے کہ سلف صالحین سے کٹ کر اور ان کی ذہنی غلامی کا جوڑا اتار کر جو لوگ اسلام کا ناک نقشہ مرتب کررہے ہیں وہ سرے سے اسلام کے قائل ہی نہیں‘ وہ قرآن اور سنت کے الفاظ بار بار اس لئے استعمال کرتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ میں کفر والحاد پھیلانے کیلئے اس کے بغیر کام نہیں چلتا۔ جناب مودودی صاحب کو میں ان لوگوں کی صف کا آدمی تو نہیں سمجھتا لیکن افسوس ہے کہ مودودی صاحب نے سلف صالحین میں سے ایک ایک فرد کی ذہنی غلامی کی نفی کرکے دور حاضر کے ملاحدہ کی ذہنی غلامی کی ترجیح دی ہے اورانہوں نے آزادروی کا وہی راستہ اپنایا ہے جس پر آج کا ماڈرن طبقہ بگٹٹ دوڑ رہا ہے۔
