امر سوم
جانتے ہو کوئی شخص جب کسی دوسرے پر تنقید کرتا ہے تو اس کا منشاء کیا ہوتا ہے؟ سنو اگر کسی کے علم پر تنقید کی جائے (خواہ وہ صرف کسی ایک مسئلہ یا معاملہ سے متعلق ہو) تو اس کامنشاء یہ ہوتا ہے کہ اس مسئلہ میں ان صاحب کا علم صحیح نہیں‘ بلکہ ناقد کا علم صحیح ہے یا ناقد اس مسئلہ کو اس سے بہتر سمجھتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کے فہم پر تنقید کی جائے تو اس کا منشاء اپنے فہم کی برتری کا احساس ہے۔ اور اگرعمل پر تنقید کی جائے تو اس کا منشاء اپنے عملی تفوق کا جذبہ ہے۔ الغرض جس بات میں آپ دوسرے پر تنقید کریں گے اس میں اپنے علم و عمل اور عقل وفہم کے مقابلہ میں دوسرے کے علم وعمل اور عقل فہم کو فروتر سمجھیں گے۔ پھر کبھی تو ناقد واقعی ان امور میں اس شخص سے جس پر تنقید کی گئی ہے۔ فائق ہوتا ہے اور کبھی واقعۃ فائق نہیں ہوتا۔
بلکہ وہ اپنی خوش فہمی کے جنون میں اپنے کو فائق تر سمجھتا ہے۔ اسلام کی اصطلاح میں اسے کبر یا تکبر کہتے ہیں اور یہی کبر تھا جس کا شکار سب سے پہلے ابلیس ہوا اور اسی بر خود غلط احساس برتری نے اسے معلم ملکوت کے بجائے قیامت تک ملعون بنادیا۔
اب اس اصول کو سامنے رکھ کر ذرا مودودی صاحب کی تنقید اور اصول تنقید پر نظر ڈالئے وہ ہر شخص کو حق دیتے ہیں کہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا سلف صالحین میں سے ہر شخص پر تنقید کرے بتائے آخر اس کو کیا نام دیا جائے؟ کیا مودودی صاحب کے نزدیک ان کی جماعت کا ہر فرد سلف صالحین سے علم وفہم میں فائق ہے؟ اگر نہیں تو اس کا منشاء برخود غلط پندار کے سوا اور کیا ہے؟ اور پھر مودودی صاحب یہ کہتے ہیں کہ حضرت یونس علیہ السلام سے فریضہ رسالت میں کچھ کوتاہیاں ہوگئی تھیں اس وقت ان کا دعویٰ گویا یہ ہوتا ہے کہ وہ فریضہ رسالت کی ذمہ داریوں کو حضرت یونس علیہ السلام سے زیادہ سمجھتے ہیں بلکہ شاید خدا سے بھی زیادہ۔ کیونکہ کم از کم مودودی صاحب سے یہ توقع نہیں ہے کہ وہ اپنی جماعت کی کوئی ذمہ داری کسی ایسے شخص کے سپرد کردیں جس کے بارے میں انہیں علم ہے کہ وہ اسے پوری طرح ادا نہیں کرسکے گا مگر بقول ان کے خدا نے فریضہ رسالت کی ذمہ داری حضرت یونس علیہ السلام کے سپرد کرکے یہ احتیاط ملحوظ نہیں رکھی۔
اسی طرح جب وہ کہتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام جاہلیت کے جذبہ سے مغلوب ہوگئے تھے تو گویا وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جذبات جاہلیت پر ان کی نظر حضرت نوح علیہ السلام سے زیادہ ہے اور یہ کہ ان جاہلی جذبات پر غالب آنے کی وہ حضرت نوح علیہ السلام سے زیادہ ہمت رکھتے ہیں کیونکہ اپنے بارے میں ان کا ارشاد یہ ہے۔
’’خدا کے فضل سے میں کوئی کام یا کوئی بات جذبات سے مغلوب ہوکر نہیں کیا اور کہا کرتا‘ ایک ایک لفظ جو میں نے اپنی تقریر میں کہا ہے تول تول کر کہا ہے اور یہ سمجھتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا حساب مجھے خدا کو دینا ہے نہ کہ بندوں کو چنانچہ میں اپنی جگہ بالکل مطمئن ہوں کہ میں نے کوئی لفظ بھی خلاف حق نہیں کہا‘‘۔(مودودی مذہب ص ۲۹ بحوالہ رسائل ومسائل ص ۳۰۶ ج ۱)
جب وہ کہتے ہیں کہ حضرت دائود علیہ السلام نے اسرائیلی سوسائٹی کے عام رواج سے متاثر ہوکر فلاں کام کیا تھا۔ اس وقت وہ نہ صرف اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ جوشخص اپنی سوسائٹی کی ذہنی غلامی میں مبتلا ہوجائے وہ پیغمبر ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ یہ وہ تاثر بھی دیتے ہیں کہ دائود علیہ السلام کی جگہ اگر حضرت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ہوتے تو اور یا سے اس کی بیوی کی طلاق کا کبھی مطالبہ نہ فرماتے۔
جب وہ کہتے ہیں کہ حضرت معاویہؓ نے فلاں معاملہ میں انسانی اخلاق تک کو ملحوظ نہیں رکھا‘ اس وقت وہ اپنے آپ کو انسانی اخلاقیات کا حضرت معاویہؓ سے بڑا عالم سمجھتے ہیں اور جب وہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت معاویہؓ نے شریعت کے فلاں قاعدے کی صریح خلاف ورزی کی۔ اس وقت وہ اپنے آپ کو حضرت معاویہؓ سے بڑھ کر عالم شریعت کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔
جب وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے لے کر حضرت سید احمد شہیدؒ تک مجددین کے تجدیدی کاموں میں یہ یہ نقائص رہ گئے‘ اس وقت وہ یہ باور کراتے ہیں کہ وہ تجدید واحیائے دین کو ان تمام اکابر سے زیادہ سمجھتے ہیں اور جب وہ بڑے فخر سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ: ’’میں نے دین کو حال یا ماضی کے اشخاص سے سمجھنے کے بجائے ہمیشہ قرآن اور سنت ہی سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے میں کبھی یہ معلوم کرنے کیلئے کہ خدا کا دین مجھ سے اور ہر مومن سے کیا چاہتا ہے یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ فلاں اور فلاں بزرگ کیا کہتے ہیں بلکہ صرف یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ قرآن کیا کہتا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا کہا‘‘۔
(مودودی مذہب: ص ۹۸ بحوالہ ترجمان القرآن مارچ تا جون ۱۹۴۵ء)
(اور قرآن اورسنت کا سمجھنا آنجناب کو کس نے سکھایا تھا؟ حال یا ماضی کے اشخاص نے؟ ملا اعلی کے فرشتوں نے؟ یا مرزا غلام احمد کی طرح سب کچھ شکم مادرہی سے لیکر آئے تھے؟ ناشکری کی حد ہے کہ دو چار الٹے سیدھے حرف جن اشخاص کی جوتیوں کی برکت سے حاصل ہوئے انہی کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ مدیر بینات)
(بنیادی طور پر ٹھیک یہی نظریہ مرزا غلام احمد قادیانی اور غلام احمد پرویز کا ہے۔ مدیر بینات)
اس وقت دراصل وہ لوگوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ امت کے طویل ترین دور میں کوئی بزرگ ان سے زیادہ دین کو سمجھنے والا پیدا نہیں ہوا۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے‘ اس پر انشاء اللہ کبھی دوسری فرصت میں کچھ کہوں گا۔ سردست مجھے یہ کہنا ہے کہ تنقید کا منشاء ہمیشہ أنا خیر منہ کا احساس ہوتا ہے اگر کوئی شخص واقعۃ کسی سے علم وفہم اور عمل واخلاق میں بڑھ کر ہے تو اسے بلا شبہ اپنے چھوٹے پر تنقید کا حق حاصل ہے اور اگربرخود غلط احساس برتری اس کا منشاء ہو تو اس سے ہر مومن کو اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے۔ اب اگر جناب مودودی صاحب واقعی ان تمام حضرات سے اپنے علم وفہم اور عمل وتقوی میں فائق ہیں جن پر انہوں نے تنقیدیں کی ہیں تو بلا شبہ انہیں تنقید کا حق ہے اور اگر ان حضرات کے مقابلہ میں علم وفہم اورعمل وتقوی میں تہی دامن ہونے کے باوصف وہ تنقید کاشوق رکھتے ہیں تو اس کامنشاء بجز غرور وپندار اور تکبر کے کیا ہوسکتا ہے۔
