امر دوم
جس چیزیا جس شخصیت کو تنقید کا محل سمجھا جائے اس کے بارے میں سب سے پہلا تصور یہ قائم ہوتا ہے کہ ’’تنقید‘‘ سے پہلے یہ چیز قابل اعتماد نہیں بلکہ جانچ پرکھ کی محتاج ہے اور اس کے بعد ہی یہ فیصلہ ہوسکے گا کہ یہ لائق اعتماد ہے یا نہیں۔ کیونکہ جو چیز سو فیصد لائق اعتماد ہو اس کے جانچنے پرکھنے کی ضرورت نہیں رہتی اور نہ دنیا میں کوئی ایسا عقل مند آپ نے دیکھا ہوگا جو سکہ بند اور لائق اعتماد چیزوں کی جانچ پرکھ کرتا پھرے۔ الغرض یہ ایک بدیہی اصول ہے کہ جو چیز لائق اعتماد ہے اس کی تنقید (یا اردو محاورے کے مطابق اس پر تنقید) کی ضرورت نہیں اور جو چیز محتاج تنقید ہے‘ وہ تنقید سے قبل لائق اعتماد نہیں۔ مثلاً بازارمیں مہر شدہ باٹ استعمال ہوتے ہیں آپ نے کسی کو نہیں دیکھا ہوگا کہ وہ سودا خریدتے وقت دکاندار سے یہ دریافت کرے کہ میاں! اس کا وزن بھی درست ہے؟ کیونکہ وہ سرکاری مہر کے بعد تنقید سے بالا تر ہے اور اس پر سرکاری مہر کا ہونا ہی اس کے قابل اعتماد ہونے کی ضمانت ہے‘ اس کے باوجود اگر کوئی شخص اس دانشمندی کا مظاہرہ کرے تو تم جانتے ہو کہ اسے کیا کہا جائے گا۔
اب جب مودودی صاحب ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کوئی بھی انسان تنقید سے بالا تر نہیں تو اس کے معنی اس کے سوا اور کیا ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کوئی انسان بھی ہمارے لئے لائق اعتماد نہیں اسی اعتماد کو جناب مودودی صاحب ذہنی غلامی سے تعبیر کرکے یہ فرماتے ہیں کہ ’’ نہ (رسول خدا کے سوا) کسی (انسان) کی ذہنی غلامی میں مبتلا ہو‘ گویا جناب مودودی صاحب کے نزدیک چودہ سو سال کی امت میں ایک شخص بھی ایسا نہیں جس کے کسی قول وفعل پر ہم اعتماد کرسکیں۔ تاوقتیکہ مودودی صاحب خدا کے بتائے ہوئے معیار پر جانچ کر اس کی درجہ بندی نہ کریں اور ہمیں یہ نہ بتلا دیں کہ فلاں شخص پر اس حد تک اعتماد کرسکتے ہو اور اس حد تک نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے خود تراشیدہ تصور اسلام میں خلفائے راشدین کے قاضیانہ فیصلوں کو بھی قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑی تاکید سے امت کو وصیت فرمائی تھی کہ خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوط پکڑیں۔مشکوۃ شریف میں یہ حدیث تم نے پڑھی ہوگی۔
حضرت عرباض بن ساریہؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں نماز پڑھا کر فارغ ہوئے تو ہماری جانب رخ کرکے بہت ہی پر اثر وعظ فرمایا جس سے آنکھیں بہہ پڑیں اور دل کانپ گئے وعظ سن کر ایک شخص نے عرض کیا کہ یارسول اللہ !آج کا وعظ تو ایسا (جامع اور مؤکد) تھا جیسا رخصت کرنے والے کا وعظ ہوتا ہے (کہ وہ کوئی ایسی بات نہیں چھوڑتا جس پر تنبیہ کی حاجت ہو) پس (اگر واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت کا وقت قریب ہے تو) ہمیں کوئی وصیت فرمائے (جس کو عمر بھر یاد رکھیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اور یہ کہ (تم میں سے جو اولوالا مر ہو اس کی) سنو اور مانو‘ خواہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو کیونکہ تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سے (نظریاتی) اختلافات دیکھے گا پس میری سنت کو اور ان خلفاء کی سنت کو جو رشد وہدایت پر فائز ہیں اختیار کرو‘ اسے خوب مضبوط پکڑ لو اور دانتوں سے تھام لو اور نئے نئے امور سے اجتناب کرو‘ کیونکہ ہر نئی بات (جسے دین کا جز سمجھ لیا جائے وہ) بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (مشکوۃ ص ۲۹ بحوالہ مسند احمد‘ ابو دائود‘ ترمذی‘ ابن ماجہ)
