دیگر اسلاف کے بارہ میں مودودی نظریات
۔1۔۔۔ امام غزالیؒ کے تنقیدی کام میں علمی وفکری حیثیت سے چند نقائص بھی تھے اور وہ تین عنوانات پر تقسیم کئے جاسکتے ہیں‘ ایک قسم ان نقائص کی ہے جو حدیث کے علم میں کمزورہونے کی وجہ سے ان کے کام میں پیدا ہوئے۔ دوسری قسم ان نقائص کی جو ان کے ذہن پر عقلیات کے غلبہ کی وجہ سے تھے اور تیسری قسم ان نقائص کی جوتصوف کی طرف ضرورت سے زیادہ مائل ہونے کی وجہ سے تھے۔ (ص ۹۲ ایضاً ص ۴۵)
۔2۔۔۔ پہلی چیز جو مجھ کو حضرت مجدد الف ثانی کے وقت سے شاہ (ولی اللہ) صاحب اور ان کے خلفاء کے تجدیدی کام میں کھٹکی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے تصوف کے بارے میں مسلمانوں کی بیماری کا پورا اندازہ نہیں لگایا اور ان کو پھر وہی غذا دے دی جس سے مکمل پرہیز کرانے کی ضرورت تھی۔(ص ۹۲ ایضاً ۷۳)
۔3۔۔۔ اسی طرح یہ قالب (تصوف) بھی مباح ہونے کے بوجود اس بنا پر قطعی چھوڑ دینے کے قابل ہوگیا ہے کہ اس کے لباس میں مسلمانوں کو افیون کا چسکہ لگایا گیا ہے اوراس کے قریب جاتے ہی اس مزمن مریضوں کو پھر وہی چنیا بیگم یاد آجاتی ہے۔ جو صدیوں سے انکوتھپک تھپک کر سلاتی رہی ہے۔ (۵۲ ایضاً ۷۴)
۔4۔۔۔ مسلمانوں کے اس مرض سے نہ حضرت مجدد صاحب ناواقف تھے‘ نہ شاہ صاحب دونوں کے کلام میں اس پر تنقید بھی موجود ہے‘ مگرغالباً اس مرض کی شدت کا انہیں پورا اندازہ نہ تھا یہی وجہ ہے کہ دونوں بزرگوں نے ان بیماروں کوپھر وہی غذا جواس مرض میں مہلک ثابت ہوچکی تھی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ دونوں کا حلقہ پھر اسی مرض سے متاثر ہوتا چلا گیا۔ (ص ۱۵۴ ایضاً ۱۳۲)
۔5۔۔۔ اگرچہ مولانا اسماعیل شہید نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ کر ٹھیک وہی روش اختیار کی جو ابن تیمیہ نے کی تھی لیکن شاہ ولی اللہ صاحبؒ کے لٹریچر میں تو یہ سامان موجود ہی تھا جس کا کچھ اثر شاہ اسماعیل شہید کی تحریروں میں بھی باقی رہا اور پیری مریدی کا سلسلہ سید صاحب کی تحریک میں چل رہا تھا۔ اس لئے مرض صوفیت کے جراثیم سے یہ تحریک پاک نہ رہ سکی۔ (مودودی مذہب: ص ۹۵ ایضاً)
۔6۔۔۔اوریہی جہالت ہم ایک نہایت قلیل جماعت (غالباً مودودی صاحب کی اپنی جماعت مدیر بینات) کے سوا مشرق سے لیکر مغرب تک مسلمانوں میں عام دیکھ رہے ہیں خواہ وہ ان پڑھ عوام ہوں یا دستار بند علماء‘ یا خرقہ پوش مشائخ‘ یا کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ حضرات‘ ان سب کے خیالات اور طور طریقے ایک دوسرے سے بدرجہا مختلف ہیں مگر اسلام کی حقیقت اوراس کی روح سے ناواقف ہونے میں سب یکساں ہیں۔ (ص ۱۹ بحوالہ تفہیمات ج ۱ ص ۳۶)
