صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارہ میں مودودی عقائد
۔1۔۔۔ صحابہؓ پربھی بشری کمزوریوں کا غلبہ ہوجاتا تھا اور وہ ایک دوسرے پر چوٹیں کر جاتے تھے۔ یہ پوری عبارت مودودی مذہب : ص ۵۶ میں پڑھ لیں‘ آگے کی عبارت نقل کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے) ۔(بحوالہ تفہیمات ج ۱ ص ۲۹۳،ص ۳۵۸ مسلک اعتدال)
۔2۔۔ صحابہ کرامؓ جہاد فی سبیل اللہ کی اصل اسپرٹ سمجھنے میں بار بار غلطیاں کر جاتے تھے۔ (۵۹ بحوالہ رسالہ ترجمان القرآن ۱۹۵۷ ص ۲۹۲)
۔3۔۔۔ ایک مرتبہ صدیق اکبرؓ جیسا بے نفس متورع اور سراپا للہیت بھی اسلام کے نازک ترین مطالبہ کو پورا کرنے سے چوک گیا۔ (ص ۱۶۰ ایضاً)
۔4۔۔۔ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) شخصی عظمت نے رحلت مصطفوی کے وقت اضطراری طور پر حضرت عمرؓ کو تھوڑی دیر کیلئے مغلوب کرلیا تھا۔
(مودودی مذہب: ص ۶۲ بحوالہ رسالہ ترجمان القرآن جلد ۱۲ عدد۴)
۔5۔۔۔ حضرت عثمانؓ جن پر اس کار عظیم (خلافت) کا بار رکھا گیا تھا ان خصوصیات کے حامل نہ تھے جو ان کے جلیل القدر پیشروئوں کو عطا ہوئی تھیں۔ اس لئے جاہلیت کو اسلامی نظام اجتماعی کے اندر گھس آنے کا راستہ مل گیا۔ (ص ۶۵ بحوالہ تجدید واحیائے دین ص ۲۳)
۔6۔۔۔ خلفائے راشدین کے فیصلے بھی اسلام میں قانون نہیں قرار پائے جو انہوں نے قاضی کی حیثیت سے کئے تھے۔(ص ۶۶ بحوالہ رسالہ ترجمان القرآن جنوری ۱۹۵۸ء)
۔7۔۔۔ حضرت عثمانؓ نے پے درپے اپنے رشتہ داروں کو بڑے بڑے اہم عہدے عطا کئے اور ان کے ساتھ دوسری ایسی رعایات کیں جو عام طور پر لوگوں میں ہدف تنقید بن کر رہیں۔ (ص : ۷۱ بحوالہ خلافت وملوکیت ص ۱۰۶)
۔8۔۔۔ مثال کے طور پر انہوں نے افریقہ کے مال غنیمت کا پورا خمس (۵ لاکھ دینار) مروان کو بخش دیا۔ (ص ۷۱ ایضاً حاشیہ)
۔9۔۔۔ اس سلسلہ میں خصوصیت کے ساتھ دو چیزیں ایسی تھیں جو بڑے دور رس اور خطرناک نتائج کی حامل ثابت ہوئیں۔ (ص ۷۲ ایضاً ص ۱۱۵)
۔10۔۔۔ دوسری چیز جو اس سے زیادہ فتنہ انگیز ثابت ہوئی وہ خلیفہ (حضرت عثمانؓ) سیکرٹری کی اہم پوزیشن پر مروان بن الحکم کی ماموریت تھی۔ (ص ۷۲ ایضاً: ۱۱۵)
۔11۔۔ تاریخ بتاتی ہے اور صحیح بتاتی ہے کہ مروان اور یزید امت مسلمہ کے نزدیک ناپسندیدہ شخصیتیں سمجھی جاتی ہیں یہ نرم سے نرم الفاظ ہیں جو مروان اور یزید کے بارے میں کہے جاسکتے ہیں۔ (ماہنامہ فاران: ص ۴۲ ستمبر ۷۶ء)
۔12۔۔۔ حضرت عثمانؓ کی پالیسی کا یہ پہلو (جو فقرہ ۱۷‘ ۱۸ میں نقل ہوا) بلا شبہ غلط تھا اور غلط کام بہر حال غلط ہے خواہ کسی نے کیا ہو۔ اس کو خواہ مخواہ کی سخن سازیوں سے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرنا نہ عقل و انصاف کا تقاضہ اور نہ دین ہی کا یہ مطالبہ ہے کہ کسی صحابی کی غلطی کو غلطی نہ مانا جائے۔ (مودودی مذہب: ص ۷۳ بحوالہ خلافت وملوکیت ص ۱۱۶)
۔13 ۔۔۔ ایک اور نہایت مکروہ بدعت حضرت معاویہؓ کے عہد میں شروع ہوئی کہ وہ خود اور ان کے حکم سے ان کے تمام گورنر خطبوں میں برسر منبر حضرت علیؓ پر سب وشتم کی بوچھاڑ کرتے تھے کسی کے مرنے کے بعد اس کو گالیاں دینا شریعت تو درکنار انسانی اخلاق کے بھی خلاف تھا اور خاص طور پر جمعہ کے خطبہ کو اس گندگی سے آلودہ کرنا تو دین واخلاق کے لحاظ سے سخت گھنائونا فعل تھا۔ (ص ۷۵ ایضاً ۱۷۴)
۔14۔۔۔زیاد بن سمیہ کا استلحاق بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ان افعال میں سے ہے جن میں انہوں نے سیاسی اغراض کیلئے شریعت کے ایک مسلم قاعدے کی خلاف ورزی کی تھی۔ (ص ۷۶ ایضاً ص ۱۷۵)
(غالباً اسی سنت کی تقلید میں آنجناب نے بھی فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں ’’سیاسی اغراض کیلئے شریعت کے ایک مسلم قاعدے کی خلاف ورزی کی تھی‘‘۔ مدیر)
۔15۔۔۔ حضرت معاویہؓ نے اس کو اپنا حامی اور مددگار بنانے کیلئے اپنے والد ماجد کی زنا کاری پر شہادتیں لیں (زنا کاری پر شہادتیں لینا؟ کیسا عجب انکشاف ہے۔ مدیر بینات) اوراس کا ثبوت بہم پہنچایا کہ زیاد انہی (ابو سفیانؓ) کا ولد الحرام ہے۔ پھر اسے اسی بنیاد پر اپنا بھائی اور اپنے خاندان کا فرد قرار دیدیا۔ یہ فعل اخلاقی حیثیت سے جیسا کہ کچھ مکروہ ہے وہ تو ظاہر ہی ہے ‘ مگر قانونی حیثیت سے بھی یہ ایک صریح ناجائز فعل تھا‘ کیونکہ شریعت میں کوئی نسب زنا سے ثابت نہیں ہوتا۔ (مودودی مذہب : ص ۷۷، ایضاً ص ۱۷۵)
۔16۔۔۔ حضرت عمرو بن العاصؓ سے دو کام ایسے سرزد ہوگئے جنہیں غلط کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ (ص ۸۴ ایضاً ص ۱۴۳)
۔17۔۔۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مالک بن حارث الاشتر اور محمد بن ابی بکر کو گورنری تک کے عہدے دے دئیے‘ درآنحالیکہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ میں ان دونوں صاحبوں کا جو حصہ تھا وہ سب کو معلوم ہے‘ حضرت علیؓ کے پورے زمانہ خلافت میں ہم کو صرف یہی ایک کام (جو ان کے پورے زمانہ خلافت پر پھیلا ہوا ہے۔ مدیر) ایسا نظر آتا ہے جس کو غلط کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ (۸۵ ص ۱۴۶)
۔18۔۔۔ حضرت عائشہ و حضرت حفصہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کچھ زیادہ جری ہوگئیں تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زبان درازی کرنے لگی تھیں۔
(ص ۸۸ ترجمان اسلام ۱۵ دسمبر ۱۹۶۷ء بحوالہ ایشیا لاہور ۱۹ نومبر ۱۹۶۷ء)
(مودودی صاحب کو اس لفظ پر کتنا اصرار ہے لکھتے ہیں ’’لیکن یہ معترض حضرات اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اگر کم مرتبے کا آدمی اپنے سے بڑے مرتبے کے آدمی کو پلٹ کر جواب دے یا دو بدو جواب دے تو اسی کا نام زبان درازی ہے۔
(تفہیم القرآن ص ۲۵ ج ۶ سورۃ تحریم طبع سوم اضافہ از ناشر)
۔19۔۔۔ تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اب تک کوئی مجدد کامل پیدا نہیں ہوا قریب تھا کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ اس منصب پر فائز ہو جاتے ‘ مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ (ص ۹۱ بحوالہ تجدید واحیائے دین ص ۲۱)
