انبیاء علیہم السلام کے بارہ میں مودودی عقائد
اب ذرا مودودی مذہب کا مطالعہ کرکے دیکھئے کہ تنقید کی چھلنی میں چھان پھٹک کر مودودی صاحب اوران کی جماعت نے اکابر کے کیا کیا درجے متعین فرمائے ہیں۔
سنئے! مودودی صاحب بتاتے ہیں۔
۔1۔۔۔ موسیٰ علیہ السلام کی مثال اس جلد باز فاتح کی سی ہے جواپنے اقتدار کا استحکام کئے بغیر مارچ کرتا ہوا چلا جائے اور پیچھے جنگل کی آگ کی طرح مفتوحہ علاقہ میں بغاوت پھیل جائے۔(مودودی مذہب: ص ۲۳ بحوالہ ترجمان القرآن ج ۲۹ عدد ۴)
۔2۔۔۔ پیغمبروں تک کو اس نفس شریر کی رہزنی کے خطرے پیش آئے ہیں‘ چنانچہ دائود علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کو ایک موقعہ پر تنبیہ کی گئی کہ ’’لاتتبع الھویٰ فیضلک عن سبیل اللہ ‘‘ (سورۃ ص: رکوع ۲) ہوائے نفس کی پیروی نہ کرنا ورنہ یہ تمہیں اللہ کے راستے بھٹکا دے گی۔ (ص ۲۱ بحوالہ تفہیمات ص ۱۶۱ طبع پنجم ص ۱۹۵)
۔3۔۔۔ حضرت دائود علیہ السلام نے اپنے عہد کی اسرائیلی سوسائٹی کے عام رواج سے متاثر ہوکر اوریا سے طلاق کی درخواست کی تھی۔ (بحوالہ تفہیمات دوم ص : ۴۲ ط دوم ص ۵۶ طبع سوم)
۔4۔۔۔ حضرت دائود علیہ السلام کے فعل میں خواہش نفس کا کچھ دخل تھا اس کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی کوئی تعلق تھا اور وہ کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنیوالے کسی فرمانروا کو زیب نہ دیتا تھا۔ (تفہیم القرآن ج ۴ ص ۳۲۷ طبع اول)
۔5۔۔۔ بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر بھی نبی جیسا اعلی واشرف انسان بھی اپنی بشری کمزوریوں سے مغلوب ہوجاتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی اخلاقی رفعت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ ابھی جاں جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے غرق ہوا ہے اوراس نظارہ سے کلیجہ منہ کو آرہا ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ انہیں متنبہ فرماتا ہے جس بیٹے نے حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا اس کو محض اس لئے اپنا سمجھنا کہ وہ تمہاری صلب سے پیدا ہوا ہے محض ایک جاہلیت کا جذبہ ہے تووہ فوراً اپنے دل کے زخم سے بے پرواہ ہوکر اس طرز فکر کی طرف پلٹ آتے ہیں۔ جو اسلام کا مقتضیٰ ہے۔
۔6۔۔۔ عصمت دراصل انبیاء کے لوازم ذات سے نہیں ہے اور یہ ایک لطیف نکتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بالا رادہ ہر نبی سے کسی نہ کسی وقت اپنی حفاظت اٹھا کر ایک دولغزشیں ہوجانے دی ہیں۔ تاکہ لوگ انبیاء کو خدا نہ سمجھیں اور جان لیں کہ یہ بھی بشرہیں۔ (ص ۳۰ بحوالہ تفہیمات دوم ص ۴۳ طبع دوم) (صفحہ ۵۶ طبع سوم)
۔7۔۔۔ انبیاء کرامؑ سے قصور بھی ہوجاتے تھے اور انہیں سزا تک دی جاتی تھی۔
(ص ۳۱ بحوالہ رسالہ ترجمان القرآن مئی ۱۹۵۵ء)
۔8۔۔۔ حضرت یونس علیہ السلام سے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کچھ کوتاہیاں ہوگئی تھیں اور غالباً انہوں نے بے صبر ہوکر قبل از وقت اپنا مستقر بھی چھوڑ دیا تھا۔
(۳۵ بحوالہ تفہیم القرآن ج ۲ ص ۳۱۳ سورۃ یونس)
