ذہنی غلامی اور تقلید

ذہنی غلامی اور تقلید

ذہنی غلامی کے لفظ سے غالباً مودودی صاحب نے ’’تقلید‘‘ کی ترجمانی فرمائی ہے لیکن اس معنی میں یہ اصطلاح غلط اور مغالطہ انگیز ہے۔ غلامی کا حاصل کسی کے آگے جھکنا ہے اور تقلید کے معنی کسی کی بات ماننا ہے۔ ایک غلام اپنے آقا کے کمالات کے آگے نہیں جھکتا بلکہ اس کی ذات کے سامنے جھکتا ہے خواہ وہ کندہ ناتراش اور احمق ہی کیوں نہ ہو ، لیکن ایک مقلد اپنے امام مجتہد کے سامنے آتا ہے تو صرف اس کے منصب و مقام کی پیروی کرتا ہے جس کو وہ عقل و نقل کا پیکر کامل سمجھتا ہے۔
ذات کے آگے نہیں جھکتا۔پس غلامی میں آقا کی ذات پیش نظر ہوتی ہے۔ اس کا کمال پیش نظر نہیں ہوتا اور تقلید میں مجتہد کا کمال سامنے ہوتا ہے ، ذات سامنے نہیں ہوتی۔ غلامی میں جبر ہوتا ہے کہ نہ غلام اپنی صلاحیتوں کو آقا کے انتخاب میں صرف کر سکتا ہے اورنہ خود آقا ہی کی صلاحیتوں پر نظر رکھ سکتا ہے۔ ادھر بھی ذات اور ذاتی خوف و طمع ، ادھر بھی ذات اور ذاتی جبر و قہر۔ نہ وہاں شعور و استدلال نہ یہاں۔
پس ’’ذہنی غلامی‘‘ میں نہ اپنا شعور بیچ میں ہوتا ہے نہ آقا کا کمال اور تقلید میں طوع و رغبت ، عقلی شعور اور قلبی اعتقاد ہوتا ہے جس میں نہ جبر و دباؤ کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے اور نہ امام مجتہد کے کمالات سے بے شعوری ، غرض غلامی بے عقلی سے پیدا ہوتی ہے اور تقلید اتباع عقل و شعور سے ، کیونکہ تقلید کسی کے آگے سرجھکانے کا نام نہیں ، اس کی بات ماننے کا نام ہے اور بات بھی وہ جسے جذبات سے نہیں ، علمی کمالات کے چشموں سے نکلی ہوئی سمجھ لی گئی ہو اور پھر کمالاتی ہی نہ ہو بلکہ اوپر سے نسبت بھی ہو کہ وہ خود اس شخص کی بات نہیں بلکہ اوپر کی بات ہے جہاں جھک جانا ہی نفسانی شرف ہے۔ پس تقلید میں شعور ہوتا ہے۔ بے شعوری نہیں ، استدلال ہوتا ہے۔
(گوجزوی مسئلہ نہ ہو ، اصولی اور کلی ہو۔ جس سے مجتہد مطاع کی شخصیت اتباع کیلئے متعین کی جاتی ہے) بے حجتی اور ذاتی دباؤ نہیں ہوتا ، عبودیت نہیں ہوتی اطاعت ہوتی ہے۔ پس کہاں غلامی اور عبدیت اور کہاں اتباع و عقیدت ، کہاں غرض مندی اور خوف و طمع اور کہاں محبت و غنایت ، کہاں شعور و استدلال اور کہاں جمود و تعطل ، کہاں حسنِ ظن اور قلبی شفقت اور کہاں بیزاری اور اندرونی انحراف ، کہاں عقل و خرد بالائے طاق اور کہاں عقلی رہنمائی پیش پیش۔
چراغ مردہ کجا، نور آفتاب کجا
اس لئے ذہنی غلامی کا لفظ جس کا معنی ذہن کو شعور و استدلال سے معطل کر کے کسی کی ذات کے آگے جھکا دینے کے ہیں اس تقلید کا ترجمان نہیں بن سکتا جس میں ذہنی شعور کی بیداری کے ساتھ کسی کی علمی اور کمالاتی نسبتوں کو سامنے رکھ کر حسن ظن اور استدلال کلی سے اس کی تقلید کی ترجمانی کیلئے ’’ذہنی غلامی‘‘ کا تحقیر آمیز لفظ شاید اشتعال انگیزی اور نئی نسل کے دل و دماغ پر چوٹ لگا کر انہیں تقلید سے بیزار بنانے کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔ کیونکہ فی زمانہ غلامی کے لفظ سے زیادہ کریہہ کوئی لفظ نہیں ، آج افراد ہوں یا طبقات ، اقوام ہوں یا اوطان۔ آزادی کے نام پر برسرپیکار ہیں۔
بااقتدار قوموں نے چونکہ کمزوروں کی غلام سازی کو زندگی کا نصب العین بنا رکھا ہے جس سے بے دست و پا اقوام تنگ آچکی ہیں۔ اس لئے وہ آزاد ہونے کیلئے ہاتھ پیر مار رہی ہیں اور آج کی دنیا میں غلامی کے لفظ ہی کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھا جانے لگا ہے۔
اس لفظ کے سامنے آتے ہی لوگ چونک پڑتے ہیں اور نفرت کے ساتھ اس سے بدک جاتے ہیں۔ اس لئے تقلید سے نفرت دلانے کیلئے اس سے بہتر تدبیر نہیں سوچی جاسکتی تھی کہ اس کا ترجمہ ایک ایسے مکروہ لفظ سے کر دیا جائے تو جو خود ہی ذہنوں میں حقیر و ذلیل ہو کہ اس راستہ سے تقلید کے مفہوم سے ہی لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کر دی جائے۔
لیکن میں عرض کر چکا ہوں کہ ذہنی غلامی اور تقلید کی حقیقتوں میں زمین و آسمان سے بھی زیادہ فرق ہے۔ اور ایک کیلئے دوسرا لفظ کسی طرح بھی ترجمان نہیں ہوسکتا بلکہ یہ لفظ ہی شرعی نہیں ہے جو کسی دینی اور شرعی اصطلاح کیلئے استعمال کیا جائے۔ یہ محض اشتعال انگیزی اور پنہائی مقصد برآری کیلئے ایک حیلہ کیا گیا ہے۔پس ہم تقلید کے ضرور قائل ہیں لیکن تقلید کے معنی ذہنی غلامی کے نہیں سمجھتے جیسا کہ ابھی ذکر کیا گیا ہے۔ تقلید میں اتباع بھی ہوتا ہے اور شعور بھی۔ گوشعور اجمالی ہو تفصیلی نہ ہو۔ ارشاد ربانی ہے
علی بصیرۃ انا ومن اتبعنی
یہاں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کیلئے (جو متبعین اولین ہیں) اتباع بھی ثابت کیا گیا ہے اور بصیرت و شعور بھی جس میں سب سے پہلے اس کا شعور پیدا ہوتا ہے کہ یہ کلام کس کا ہے جس کی پیروی کی جا رہی ہے اور وہ شخصیت کون ہے جس کا اتباع کیا جا رہا ہے۔ اور ذہنی غلامی کا حاصل کلیۃً ذہنی بے شعوری ، اور جمود کے ہیں جو کسی بھی مومن کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔
اس مضمون میں ہم نے جہاں بھی یہ لفظ لیا ہے وہ مودودی صاحب کے کلام سے بطور حکایت و نقل کے لیا ہے ورنہ ہمارے نزدیک اسلامی اصطلاح کے نقطۂ نظر سے یہ لفظ مہمل اور بے معنی ہے۔ نہ یہ کسی شرعی مفہوم کا ترجمان بن سکتا ہے نہ عقل کا۔ کفار کی آبائی تقلید پر بول دیا جائے تو ممکن ہے کہ کسی حد تک چسپاں ہو جائے۔(خطبات حکیم الاسلام، جلد:۶)

Most Viewed Posts

Latest Posts

مسئلے کی خاصیت جھگڑا نہیں

مسئلے کی خاصیت جھگڑا نہیں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔۔’’اگر اختلاف حجت سے ہو تو وہ دین کا ایک پہلو ہو گا وہ اختلاف تو ہو گا مگر جھگڑا نہ ہو گا کیونکہ اس میں حجت موجود ہے۔ یہ جھگڑے اصل میں ہم اپنی جذبات سے کرتے ہیں اور مسئلوں کو...

read more

صحابہ رضی اللہ عنہم معیار حق

صحابہ رضی اللہ عنہم معیار حق اس تحریر کو فقیہ الامت عبداللہ بن مسعودؓ کے ارشاد پر ختم کرتا ہوں تاکہ ان کے ارشاد سے مودودی صاحب کے فرامین کا معیار حق تمہیں معلوم ہوسکے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جس کو کسی کی اقتدا کرنی ہو تو ان حضرات کی...

read more

مودودی صاحب کا حق تنقید اور اس کے مہلک اثرات

مودودی صاحب کا حق تنقید اور اس کے مہلک اثرات افسوس ہے کہ جناب مودودی صاحب نے بھی اپنی اسلامی تحریک کی بنیاد اسی نظریہ پر اٹھائی ہے۔ ہم جب خارجیوں کے حالات پڑھتے تھے تو ہمیں ان کی جرأت پر تعجب ہوتا تھا کہ وہ ایک ایسی شخصیت کے مقابلہ میں دین فہمی کا دعویٰ کررہے ہیں جس...

read more