صحابہ رضی اﷲ عنہم کی اجتماعی اطاعت
ادھر الفاظ حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا ایک دو صحابی ہی معیار حق نہیں بنا دیئے گئے بلکہ ’’اصحابی‘‘ جمع کا صیغہ لا کر اشارہ کیا گیا کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم معیارِ حق بن کر واجب الاطاعت ہیں۔ جس کیلئے احادیث میں ایک ایک ، دو دو اور چار چار اس سے زیادہ اور پھر پوری جماعت کی اقتداء کے اوامروارد ہوئے ہیں۔ کیونکہ معیار ہو کر بھی واجب الاطاعت نہ بنے تو معیار معیار نہیں رہتا اور جبکہ معیار حق ساری جماعت صحابہ رضی اﷲ عنہم کو فرمایا گیا تو سارے ہی صحابہ رضی اﷲ عنہم بلا استثناء واجب الاطاعت بھی قرار دیئے گئے۔ ممکن ہے کہ شکی کو شک و شبہ گزرے کہ جب صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے فروعی مذاہب مختلف رہے اور مسائل میں اختلاف اور تناقض تک نظر آتا ہے تو لامحالہ ایک کی اطاعت کر کے بقیہ کی اطاعت سے دست برداری ہی کرنی پڑے گی ورنہ ضدین کا اجتماع ہو جائے گا جو ناممکن العمل ہے تو پھر سب کی اطاعت و پیروی کہاں رہی اور ممکن ہی کب ہوئی؟
جواب یہ ہے کہ اگر ایک کی پیروی دوسروں کی طعن و تنقید سے بچ کر اور سب کی عظمت رکھ کر ہو تو وہ سب ہی کی پیروی کہلائے گی۔ جیسا سلسلہ ختم نبوت میں عملاً پیروی ایک رسول کی ہوتی ہے مگر معیار حق سب کو سمجھا جاتا ہے۔ عظمت و تنزیہ اور تقدیس سب کی یکساں کی جاتی ہے۔ تنقید و تخطیہ سب کا معصیت سمجھا جاتا ہے۔ تو یہی سارے انبیاء کی پیروی سمجھی جاتی ہے۔ ورنہ کسی ایک پر بھی زبان طعن یالسانی نقد و تبصرہ کھول کر ہزار کی پیروی بھی پیروی نہیں ہے۔
بلکہ سب کی مخالفت اور بغاوت ہے کیونکہ خود حضرات صحابہ رضی اﷲ عنہم فروعات میں مختلف رہنے کے باوجود آپس میں ایک دوسرے کی عظمت و توقیر کو واجب سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف کو وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ جیسا کہ انبیاء علیہم السلام شرائع میں مختلف رہ کر ایک دوسرے کی تصدیق کو اصل ایمان قرار دیتے تھے۔ پس ایک طعنہ زن اور نکتہ چین جب کہ ان کے اس قدر مشترک کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو وہ سب کی خلاف ورزی کا مرتکب اور سب کے حق میں باغی ہے۔ ذیل کے ارشاد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں اس حقیقت پر روشنی بھی ڈال دی گئی ہے کہ
’’ اَصْحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھْتدَیْتُمْ ‘‘
’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔ جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے‘‘
’’اَیُّھُمْ‘‘ کے لفظ سے اقتدا تو مطلق رکھی گئی ہے کہ کسی کی بھی کی جائے ہدایت مل جائے گی۔ لیکن نجوم کے لفظ سے اقتداء کو سمجھنا اور ہادی ماننا سب کیلئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہ جس کی پیروی کرو نجم ہدایت اور نور بخش صرف اسی کو سمجھو پس پیروی کا عمل تو ایک دو تک محدود ہو سکتا ہے لیکن نور افشانی کا عقیدہ ایک دو تک تو محدود نہیں رہ سکتا وہ سب کیلئے ماننا لازمی ہوگا۔بہرحال صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کا طبقہ تو وہ ہے کہ اس کا نام لے کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے اُمت کے مختلف مکاتب خیال کے فرقوں کے حق و باطل کا معیار قرار دیا ہے۔ تنقید سے بالاتر بتلایا اور ان کی ’’ذہنی غلامی‘‘ یا اطاعت و پیروی ضروری قرار دی۔
