عشق صحابہ رضی اللہ عنہم میں ڈوبی ہوئی تحریر
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ پرسب و شتم (بُرا بھلا )کرنیوالوں کے متعلق ارشاد فرمایاکہ ان کو جواب میں کہو کہ ’’لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی شَرِّکُمْ ‘‘شَرْ۔اسم تفضیل کا صیغہ ہے جو مشاکلت کے طور پر استعمال ہوا ہے اس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ناقدین صحابہ کیلئے ایسا کنایہ استعمال فرمایا ہے کہ اگر وہ اس پر غور کریں تو ہمیشہ کیلئے تنقید صحابہ کے روگ کی جڑ کٹ جاتی ہے۔۔۔۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اتنی بات تو بالکل کھلی ہے صحابہ کیسے ہی ہوں مگر تنقید کرنے والے سے تو اچھے ہی ہوں گے۔ تنقید کرنے والے کی تنقید سے یہ لازمی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ خود ناقد فلاں کی جگہ ہوتا تو ایسا نہ کرتابلکہ اس سے بہتر کام کرتا۔
تم ہوا میں اڑو۔۔۔ آسمان پر پہنچ جائو۔۔۔ سو بار مر کے جی لومگر تم اپنے کو صحابی تو نہیں بنا سکتے۔۔۔ تم آخر وہ آنکھ کہاں سے لائو گے جس نے جمال جہاں آرائے محمد کا دیدار کیا ۔۔۔وہ کان کہاں سے لائو گے جو کلمات نبوت سے مشرف ہوئے۔۔۔ ہاں۔۔۔ہاں وہ دل کہاں سے لائو گے جو انفاس مسیحائے محمدی سے زندہ ہوئے ۔۔۔۔وہ دماغ کہاں سے لائو گے جو انوار مقدس سے مشرف ہوئے۔۔ تم وہ ہاتھ کہاں سے لائو گے جو ایک بار بُشرۂ محمدی سے مس ہوئے اور ساری عمر انکی بوئے عنبریں نہیں گئی۔۔۔ تم وہ پائوں کہاں سے لائو گے جو معیت محمدی میں آبلہ پا ہوئے۔۔۔ تم وہ مکان کہاں سے لائو گے جہاں سرورکونین کی سیادت جلوہ آراء تھی۔۔۔ تم وہ محفل کہاں سے لائو گے جہاں سعادت دارین کی شراب طہور کے جام بھر بھر کر دیئے جاتے اور تشنۂ کامان محبت ہَلْ مِنْم مَزِیْد کا نعرہ مستانہ لگا دیتے تھے۔۔۔ تم وہ منظر کہاں سے لائو گے جو کَانِّیْ اَرَی اللّٰہَ عَیَانًا کا کیف پیدا کرتا تھا تم وہ مجلس کہاں سے لائو گے جہاں کَاَنَّمَا عَلیَ رُؤُسِنَا الطَّیْرُ کا سماں بندھ جاتا تھا۔۔۔ تم وہ صدر نشین تخت رسالت کہاں سے لائو گے ۔۔۔جس کی طرفہَذَا الْاَبْیَضُ الْمَتَّکِئِی سے اشارے کئے جاتے تھے ۔۔۔تم وہ شمیم عنبر کہاں سے لائو گے جس کے ایک جھونکے سے مدینہ کی گلی کوچے معطر ہو جاتے تھے۔۔۔
تم وہ محبت کہاں سے لائو گے جو دیدار محبوب میں خواب نیم شبی کو حرام کر دیتی تھی۔۔۔ تم وہ ایمان کہاں سے لائو گے جو ساری دنیا کو تج دیکر حاصل کیا جاتا تھا۔۔۔ تم وہ اعمال کہاں سے لائو گے جو پیمانۂ نبوت سے ناپ ناپ کر ادا کئے جاتے تھے۔۔۔۔ تم وہ اخلاق کہاں سے لائو گے جو آئینہ محمدی سامنے رکھ کر سنوارے جاتے تھے۔۔۔ تم وہ رنگ کہاں سے لائو گے جو صِبْغَۃُ اللّٰہِ کی بٹھی میں دیا جاتا تھا۔۔۔۔ تم وہ ادائیں کہاں سے لائو گے جو دیکھنے والوں کو نیم بسمل بنا دیتی تھیں۔۔۔۔
تم وہ نماز کہاں سے لائو گے ۔۔۔جس کے امام نبیوں کے امام تھے۔۔۔ تم وہ قدسیوں کی جماعت کیسے بن سکو گے جس کے سردار رسولوں کے سردار تھے۔اللہ پاک ان قدسی صفات نفوس کی عظمت و عقیدت کیساتھ کامل تابعداری کی سعادت عظمیٰ سے ہم سب کو نوازیں آمین (بحوالہ: خدام الدین مئی 1975)
وَصَلَی اللّٰہُ عَلیٰ خَیْرُ خَلْقِہٖ سَیِّدِنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ
وَّآلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن۔
