ضرورت تقلید شخصی
جب دوسری صدی کے اخیر میں دیکھا گیا کہ
مذاہب مجتہدین کے بکثرت پیدا ہوگئے۔۔۔ بہت کم ایسے احکام باقی رہے جن کے حرمت و جواز میں یا کراہت و استحباب وغیرہ میں خلاف نہ ہو۔۔۔
ادھر ابنائے زمانہ میں ہواؤ ہوس کا غلبہ دیکھا گیا، وہ رخصتوں کو تلاش کرنے لگے، جس امام مجتہد کا جو مسئلہ اپنی خواہش کے موافق ملا اُس کو اختیار کرلیا اور باقی کو پس پشت ڈالا۔۔۔ یہاں تک کہ اندیشہ ہوگیا کہ یہ دین متین ایک خواہشات کا مجموعہ بن جائے اور بجائے اس کے کہ مسلمان اپنے دین کا اتباع کریں اب یہ دین کو اپنی خواہش کے تابع بنالیں گے۔۔۔ اس لیے اُس زمانہ کے زیرک اور دور اندیش علماء نے اس ضرورت کو محسوس کیا، اب تقلید غیرشخصی میں اتنے بڑے بڑے مفاسد پیدا ہوگئے اور آئندہ اُن سے بڑے مفاسد کا اندیشہ ہے۔۔۔
اس لیے اس وقت مصلحت شرعی کا تقاضا یہ ہے کہ تقلید غیرشخصی سے لوگوں کو روکا جائے اور سب کو تقلید شخصی پر جمع کردیا جائے اور اس پر اجماع منعقد ہوگیا۔۔۔ (حوالہ بالا، ص:۸) … ورنہ تقلید غیرشخصی کی آڑ میں لوگ محض اپنے نفس کے مقلد بن جائیں گے جوکہ باجماع اُمت حرام ہے۔۔۔(تقلید شخصی، ص:۱۰)
