علامہ اقبال کی خدمت میںپروفیسر مفسر
وکیل احناف حضرت مولانا محمد امین اوکاڑوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔
ایک کالج کے پروفیسر کو شوق ہوا کہ میں قرآن پاک کی تفسیر لکھوں، خوب بکے گی، پیسے اچھے آئیں گے لکھنی شروع کردی اب دل میں سوچ رہا ہے کہ بکے گی کیسے؟ مجھے تو کوئی جانتا نہیں، کوئی بڑے مولوی صاحب لکھیں کہ یہ تفسیر بہت اچھی ہے، پھر تو بکے گی لیکن مولوی صاحب ایک ایک صفحہ میں بیس بیس غلطیاں نکال لیں گے، ہوسکتا ہے کہ مجھے ویسے ہی برا بھلا کہنا شروع کردیں، لکھتا رہا، سوچتا رہا۔
آخر ایک دن دل میں خیال آیا کہ علامہ اقبالؒ شاعر ہے دین کا درد دل میں رکھتا ہے لیکن مولوی تو نہیں ہے ناں، اسے تفسیر دکھائوں گا، ویسے ہی دیکھ کر خوش ہوجائے گا کہ تفسیر اچھی ہے، علامہ اقبالؒ مشہور آدمی ہے دو سطریں لکھ دے گا میرا کام بن جائے گا، یہ آدمی تفسیر کا ایک حصہ لے کر علامہ اقبال رحمہ اللہ کے پاس چلا گیا کہ جی میں نے تفسیر لکھنا شروع کی ہے، جو عقلی شبہات کالجی لڑکوں میں پھیلائے جاتے ہیں ان کو سامنے رکھ کر تفسیر لکھی جائے تاکہ ان فتنوں کا انسداد ہوجائے، بہت اچھا کام ہے، کہنے لگا میں ساتھ بھی لایا ہوں، آپ اس پر کچھ لکھ دیں کہا اچھا رکھ دو، میں پڑھوں گا پھر بعد میں آنا اب کوئی دو ماہ بعد پروفیسر صاحب ہوگئے، پروفیسر صاحب کا خیال تھا کہ ڈاکٹر صاحب خود ہی تفسیر کا ذکر چھیڑیں گے، انہوں نے کوئی بات ہی نہیں کی، پروفیسر نے اٹھتے وقت کہا میں آپ کو تفسیر دے کرگیا تھا۔
فرمایا کہ آپ کی تفسیر میں نے پڑھی، آپ کی تفسیر سے میری ایک بہت بڑی غلط فہمی دور ہوگئی کہ آج تک میں اس غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ تاریخ اسلام میں سب سے زیادہ مظلوم ہستی حضرت حسینؓ کی ہے کہ پردیس میں چھوٹے چھوٹے بچے ذبح کردئیے گئے، لیکن آپ کی تفسیر پڑھ کر میری غلط فہمی دور ہوگئی کہ نہیں حسینؓ سے بھی زیادہ مظلوم خدا کا قرآن ہے کہ جو بھی اٹھتا ہے اس کی تفسیر لکھنا شروع کردیتا ہے۔ (از خطبات امین)
