اسلاف پر اعتماد کی شرعی حیثیت
اعتمادایک فطری تقاضا ہے کیونکہ دین و دنیا کے تمام امور کی صحیح انجام دہی کے لئے اعتماد پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے ورنہ نظام زندگی ہی معطل ہوکر رہ جائے۔
دینی امور میں اکابر پر اعتمادکو شرعی حیثیت حاصل ہے دین کے چار مآخذ قرآن و حدیث کے بعد دو مآخذ اجماع اور قیاس مجتہد اعتماد ہی کا مظہر ہیں یعنی جو چیز براہ راست قرآن و حدیث میں نہ ملے تو انہی دو مآخذ کے ذریعے اپنے بڑوں کی فہم پر اعتماد کا اظہارکیا جاتا ہے۔ اوران دو مآخذ کی روشنی میں شریعت کی پیروی کی جاتی ہے۔ اوران دو کا دین و مذہب کے مآخذ میں شامل ہونا اعتماد کی اہمیت کو ظاہر کررہا ہے۔ لہٰذا اعتماد کی ایک حیثیت ہے نہ کہ محض رکھ رکھائو کی بنیاد پر اسے قبول کیا جاتا ہے۔
حضرت اقدس مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے صیانۃ المسلمین کے اجلاس میں فرمایا تھا کہ سورۃ فاتحہ پورے قرآن مجید کا خلاصہ ہے سورۂ فاتحہ میں اﷲ تعالیٰ سے صراط مستقیم کی دعا مانگی گئی ہے۔
اور اس کے تعین کے لئے صراط القرآن یا کسی کتاب کا ذکر نہیں بلکہ صراط الذین انعمت علیہم مذکور ہے کہ مجھے ان لوگوں کے راستہ پر چلا جو تیرے انعام یافتہ بندے ہیں۔ یہاں سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ منعم علیہم بندوں پر اعتماد کی شرعی حیثیت ہے دوسری جگہ ارشاد واتبع سبیل من اناب الی اس میں ان لوگوں کی پیروی کا حکم ہے جو اﷲ کی طرف رجوع کرنے والے ہیں وتوفنا مع الابرار وغیرہ نصوص میں ان شخصیات پر اعتماد واتباع کی اہمیت ظاہر ہورہی ہے۔
