ایشا امبانی کا نیا لباس یا ثقافتی جعل سازی؟ سچ کیا ہے اور پریشانی کس بات کی ہے؟

ایشا امبانی کا نیا لباس یا ثقافتی جعل سازی؟ سچ کیا ہے اور پریشانی کس بات کی ہے؟

حال ہی میں ایشا امبانی کا ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں وہ ایک شاندار ’گاؤن‘ میں ملبوس ہیں۔ دور سے دیکھنے پر وہ روایتی ساڑھی معلوم ہوتی ہے، مگر درحقیقت وہ ایک مغربی طرز کا مکمل بند لباس
۔(gown)۔
 ہے جو جسم کے گرد لپیٹا نہیں گیا بلکہ ایک ہی ساخت میں سلا ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے کئی میڈیا ہاؤسز اور سوشل میڈیا صفحات نے ’ساڑھی کا جدید انداز‘ یا ’نیو جنریشن ساڑھی‘ قرار دیا۔ لیکن کیا ایسا کرنا درست ہے؟ کیا یہ واقعی ساڑھی ہے یا ایک مغربی فیشن کو ہندوستانی ثقافت کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے

ساڑھی اور گاؤن میں بنیادی فرق

ساڑھی کا تصور برصغیر میں صدیوں پرانا ہے۔ یہ لباس ایک خاص کپڑے کو جسم کے گرد لپیٹ کر پہنا جاتا ہے، جس میں ستر پوشی، نزاکت اور تہذیبی پہچان شامل ہوتی ہے۔ دوسری طرف، گاؤن مغربی ثقافت کا ملبوس ہے، جو مکمل طور پر سلا ہوا ہوتا ہے۔ ایشا کا لباس اگرچہ دیکھنے میں ساڑھی جیسا لگتا ہے، مگر حقیقت میں یہ ساڑھی نہیں بلکہ فیشن ہاؤس روبیٹو کاولی
 (Roberto Cavalli)
 کا ڈیزائن کردہ ایک
’Bandhani Gown‘
 ہے، جو صرف سِلائی اور رنگت کی حد تک بھارتی لگتا ہے۔

بھارتی عوام کا شدید ردعمل

ہندوستانی عوام کی ایک بڑی تعداد اس تبدیلی پر ناراض ہے۔ سوشل میڈیا پر ہزاروں صارفین نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ:۔
۔”یہ ساڑھی نہیں بلکہ گاؤن ہے، اور اسکو ساڑھی کہنا ساڑھی کی توہین ہے۔”۔
کئی صارفین کا کہنا تھا کہ جدید فیشن کے نام پر اصل ثقافت کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ کچھ نے تو یہاں تک کہا کہ یہ سب نوجوان نسل کو اصل روایا
سے دور کرنے کی سازش ہے۔ صرف یہ نہیں بلکہ معروف اکاؤنٹس جیسے
DietSabya
 نے بھی اس پر تنقید کی اور اسے ’ثقافتی بگاڑ‘ سے تعبیر کیا۔

فیشن ہاؤسز اور ثقافتی چوری

گزشتہ برسوں میں عالمی فیشن برانڈز جیسے گوچی، لوئی وٹون، اور پرادا نے ’انڈیا انسپائرڈ‘ کپڑوں کو اپنے کلیکشنز میں شامل کیا ہے۔ مگر وہ ہمیشہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ محض “انسپائریشن” ہے، نہ کہ اصلی روایتی لباس۔ روبیٹو کاولی کی ٹیم نے اس بار کو بنیاد بنا کر ساڑھی کے ڈیزائن کو مغربی انداز میں پیش کیا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ فیشن ہے یا ثقافت کی چوری؟

پاکستان میں اس وائرل معاملے کی گونج

پاکستانی عوام نے بھی اس وائرل لباس پر شدید تبصرے کیے۔ بہت سے صارفین نے کہا کہ ہمیں اپنی ثقافت پر فخر ہے اور ایسی جعل سازی کو کبھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ چونکہ پاکستان میں بھی ساڑھی کو ایک عزت دار اور باوقار لباس سمجھا جاتا ہے، اس لیے جب اسے ایک بند گاؤن میں تبدیل کیا گیا تو اسے ناقابلِ قبول قرار دیا گیا۔

سادگی، پردہ اور تہذیب

ایک مسلمان معاشرہ ہونے کے ناطے، پاکستان میں سادگی، پردہ، اور حیاء کو لباس کا جزو سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح کے جدید ملبوسات نہ صرف اسلامی اقدار سے متصادم ہوتے ہیں بلکہ نوجوان لڑکیوں کو بھی فیشن کے ایسے راستے پر ڈال سکتے ہیں جہاں تہذیب محض نام کی رہ جاتی ہے۔ ’ایشا امبانی کا نیا لباس‘ اسی تضاد کی مثال ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے اثرات

جب کوئی تصویر یا ویڈیو وائرل ہوتی ہے، تو وہ صرف جمالیاتی پہلو سے نہیں دیکھی جاتی بلکہ وہ لوگوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل کے نوجوان، جو سوشل میڈیا سے متاثر ہوتے ہیں، وہ ان فیشن ٹرینڈز کو فالو کرتے ہیں، چاہے وہ ان کی تہذیب یا دینی شناخت کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔

مثبت رویہ اپنانے کی ضرورت

بحیثیت مسلمان اور مشرقی معاشرے کے افراد، ہمیں صرف تنقید نہیں کرنی چاہیے بلکہ متبادل بھی دینا چاہیے۔ اگر کسی کو جدید انداز پسند ہے تو اسے ’اسلامی فیشن‘ کے انداز میں پیش کرنا زیادہ بہتر ہے۔ آج کئی نوجوان ڈیزائنرز ایسے کپڑے تیار کر رہے ہیں جو باوقار، پردے والے، اور سادہ مگر جاذبِ نظر ہوتے ہیں۔

میڈیا کی تجارتی چالیں

یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ زیادہ تر میڈیا ہاؤسز کا مقصد ریٹنگ اور کمائی ہوتا ہے، نہ کہ ثقافت کا تحفظ۔ اسی لیے وہ ہر نئی بات کو ’وائرل‘ بنا کر لوگوں کو مشغول کر دیتے ہیں۔ “ایشا امبانی کا نیا لباس” بھی اسی چال کا ایک حصہ ہے۔

خریداری، فیشن اور دینی سوچ

اگر آپ فیشن سے محبت کرتے ہیں، تو یہ بری بات نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ فیشن کا رجحان دینی اور اخلاقی اقدار کے مطابق ہو۔ ایسے لباس کا انتخاب کریں جو باوقار ہو، اور نوجوانوں کو بھی ایسی ترغیب دیں کہ وہ فیشن میں بھی اپنی ثقافت اور دین کو نہ چھوڑیں۔

ابھی آرڈر کریں: مشرقی تہذیب پر مبنی اسلامی کتب کتاب فروش اسٹور

کتاب فروش نے ایک نیا مشن شروع کیا ہے جس میں ہزاروں مفت مضامین آپ کے لیے شائع کیے جا رہے ہیں:
⤷ Read Now on ReadNGrow.online

مزید یہ کہ ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے Official WhatsApp چینل کو ضرور جوائن کریں تاکہ تمام اپڈیٹس فوراً حاصل ہوں:۔
Join WhatsApp Channel

مزید کتب اور اسلامی علم کی فہرست کے لیے یہ پیج وزٹ کریں:۔
کتاب فروش ہوم پیج


کیا ایشا امبانی کا لباس واقعی ساڑھی تھا؟

نہیں، وہ گاؤن تھا جو ساڑھی جیسا نظر آ رہا تھا مگر روایتی ساڑھی نہیں تھا۔

بھارتی عوام کو اس لباس سے کیا اعتراض تھا؟

وہ سمجھتے ہیں کہ ثقافتی جعل سازی ہو رہی ہے اور ساڑھی کی اصل شکل کو بگاڑا جا رہا ہے۔

کیا پاکستان میں اس موضوع پر کوئی ردعمل آیا؟

جی ہاں، پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی اس معاملے پر خاصی گفتگو ہوئی، جس میں لوگوں نے تہذیب کی حفاظت کا مطالبہ کیا

Most Viewed Posts

Latest Posts

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی چنانچہ سلف سے لے کر خلف تک اختلافی مسائل میں ایسے ہی جامع افراد کی تقلیدِ معین بطور دستور العمل کے شائع ذائع رہی ہے اور قرنِ صحابہ ہی سے اس کا وجود شروع ہوگیا تھا۔ مثلاً حدیث حذیفہ میں جس کو ترمذی نے روایت کیا ہے، ارشادِ نبوی ہے:انی...

read more

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اپنے رسالہ ’’اجتہاد و تقلید‘‘ کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں:۔۔۔۔۔ساتھ ہی اس پر غور کیجئے کہ اس ہرجائی پن اور نقیضین میں دائر رہنے کی عادت کا...

read more

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار غور کیا جائے تو شرعی اصطلاح میں ان ساتوں سنابل کا خلاصہ چار ارکان:۔۔ 1ایمان 2اسلام 3احسان 4 اور اعلاء کلمۃ اللہ ہیںجو حقیقتاً انہارِ اربعہ ہیں۔ ’’نہران ظاہران و نہران باطنان‘‘ ایمان و احسان باطنی نہریں ہیں اور اسلام و اعلاء کلمۃ اللہ...

read more