مختلف سنتیں
سنت-۱ :بیمار کی دوا دارو کرنا (ترمذی)
سنت- ۲:مضرات سے پرہیز کرنا (ترمذی)
سنت- ۳:بیمار کو کھانے پینے پر زیادہ زبردستی مت کرو (مشکوٰۃ)
سنت- ۴:خلاف شرع تعویذ‘ گنڈے‘ ٹونے ٹوٹکے مت کرو (مشکوٰۃ)
بچہ پیدا ہونے کے وقت
سنت-۱: جب بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر کہنا (مسند ابویعلیٰ)
سنت-۲: جب سات روز کا ہو جائے تو اس کا اچھا نام رکھنا (ابودائود)
سنت-۳:ساتویں روز عقیقہ کرنا (ابودائود) ساتویں روز نہ ہو تو چودھویں ورنہ اکیسویں روز۔
سنت-۴: کسی بزرگ سے چھوارہ چکلوا کر بچے کے منہ میں چٹانا اور بزرگ کا دعا کرنا (بخاری و مسلم)
سنت-۵: گھر پر مہمان آئے تو اس کی عزت و اکرام کرنا (مشکوٰۃ)
سنت-۶: کسی شخص نے آپ کی مہمان نوازی جان کر نہ کی ہو لیکن جب وہ آپ کے گھر آئے تو اس کی مہمانداری کرنا (ترمذی)
سنت-۷: مہمان جب رخصت ہو تو گھر کے دروازے تک اس کو چھوڑنا (ابن ماجہ)
سنت-۸: پڑوسی کو اپنی ایذا سے بچانا‘ اس کو اچھی بات کہنا ورنہ خاموش رہنا صلہ رحمی کرنا (بخاری و مسلم)
سنت- ۹:اپنے ہاتھ سے کما کر کھانا (بخاری)
سنت- ۱۰:کوئی شخص آپ کے لئے ہدیہ یا تحفہ لائے اور آپ کا اس کی طرف شوق بھی نہ تھا تو اس کا قبول کر لینا (الترغیب)
سنت-۱۱ :جمعہ و عیدین کی نماز کے لئے غسل کرنا‘ جلدی نماز کے لئے چلے جانا‘ وہاں دنیا کی باتیں نہ کرنا‘ پہلی صف میں امام کے پیچھے جا کر بیٹھنا آدمی اگر پہلے سے بیٹھے ہوں تو ان کو پھلانگ کر نہ جانا دو آدمیوں میں جو پاس پاس بیٹھے ہوں جدائی نہ کرنا خطبہ کے وقت خاموش رہنا ۔ جمعہ سے قبل چار رکعت سنت ہیں جمعہ کے فرضوں کے بعد چار سنت پھر دو سنت ہیں (الترغیب)
سنت- ۱۲:جو مسلمان ملے اس کو سلام کرنا چھینک آئے تو الحمد للہ کہنا‘ سلام کا جواب وعلیکم السلام کہنا اور چھینک کا جواب یرحمک اللہ سے دینا واجب ہے بیمار ہو جائے تو اس کو پوچھنے کے لئے جانا مر جائے تو دوسرے مسلمانوں کے ہوتے ہوئے بھی اس کے جنازے کے پیچھے چلنا‘ نماز ودفن میں شریک رہنا‘ جب کوئی دعوت دے تو بلا عذر شرعی دعوت رد نہ کرنا‘ امانت کو بعینہ ادا کرنا‘ وعدے کو پورا کرنا‘ کوئی رشتہ دار بدسلوکی کرے اس کے ساتھ سلوک سے پیش آنا چھوٹوں پر رحم کرنا‘ بڑوں کی عزت کرنا‘ پڑوسی کے ساتھ احسان کرنا‘ غیر مسلم اقوام کی وضع قطع ان کے رسم و رواج ترک کر کے ان کو اسلام کے مطابق کرنا‘ غصہ پی جانا‘ مسلمانوں کو اپنے ہاتھ و زبان سے محفوظ رکھنا نعمت پر شکر کرنا مصیبت پر صبر کرنا‘ گانے کی طرف کان نہ لگانا (الترغیب والترہیب)
سنت- ۱۳:اہلبیت ‘ صحابہ کرام‘ ازواج مطہرات سب سے محبت رکھنا (ترمذی)
سنت- ۱۴:سردار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر درودشریف پڑھتے رہنا (ترمذی)
سنت- ۱۵:دعا کے اول و آخر میں درود شریف پڑھنا (مشکوٰۃ)
سنت- ۱۶:خوش طبعی کرنا اور اس میں سچ بولنا (نشرالطیب)
سنت- ۱۷:اپنے اوقات میں کچھ وقت اللہ کی عبادت کے لئے کچھ گھر والوں کے حقوق ادا کرنے کے لئے (جیسے ان سے ہنسنا بولنا) ایک حصہ اپنے بدن کی راحت کے لئے نکالنا۔
سنت- ۱۸:دین کی بات سن کر دوسرے مسلمان تک پہنچانا۔
سنت- ۱۹:اپنی زبان کو لایعنی باتوں سے بچانا۔ 
سنت- ۲۰:کشادہ روئی اور حسن اخلاق کے ساتھ ملنا۔
سنت- ۲۱:اپنے ملنے جلنے والوں کے حالات کا استفسار کرنا۔
سنت- ۲۲:اچھی بات سن کر اس کی اچھائی اور بری بات سن کر اس کی برائی سمجھنا۔
سنت- ۲۳:ہرکام کو انتظام سے کرنا۔
سنت- ۲۴:کسی قوم کا آبرو دار آدمی ہو تو اس کے ساتھ عزت سے پیش آنا۔
سنت- ۲۵:مجلس میں اٹھنا بیٹھنا ذکر اللہ کے ساتھ ہو ہر مجلس میں ایک بارکسی وقت درود شریف پڑھنا۔
سنت-۲۶: مجلس میں جو جگہ مل جائے اسی جگہ بیٹھ جانا۔
سنت-۲۷: کوئی شخص جہاں بیٹھا ہے اس کو کسی ترکیب سے اٹھا کر خود وہاں نہ بیٹھنا۔
سنت-۲۸: بات کا نرمی سے جواب دینا۔
سنت-۲۹: سات برس کا بچہ ہو جائے تو نماز و دیگر دین کی باتوں کا حکم کرنا۔
سنت-۳۰: دس برس کا ہو جائے تو مار کر نماز پڑھوانا۔ (ہذاالکل من نشرالطیب)
خیروبرکت اور ثواب دارین سنتوں پر چلنے میں ہے
سردار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم بہت بڑے سخی تھے کسی سوال کرنے والے کو ’’نہیں‘‘ کبھی نہیں کہا۔ ہوا تو فوراً دیدیا ورنہ نرمی سے سمجھا دیا کہ دوسرے وقت آئے گا تو لے جانا۔ آپؐ بات کے بہت سچے تھے۔ سب باتوں میں آسانی اور سہولت اختیار فرماتے اپنے اٹھنے بیٹھنے والوں کا سب کا خیال رکھتے ان کی پوچھ گچھ رکھتے گھر والوں کا بہت خیال رکھتے کہ کسی کو اپنے سے تکلیف نہ پہنچے اسی لئے رات کو باہر جانا ہوتا تو آہستہ سے اٹھتے آہستہ سے جوتا پہنتے۔ آہستہ سے کواڑ کھولتے آہستہ سے باہر چلے جاتے اسی طرح سے گھر میں تشریف لاتے تو آہستہ سے آتے تاکہ سونے والوں کو تکلیف نہ ہو اور کسی کی نیند خراب نہ ہو جائے چلتے تو نیچی نگاہ زمین کی طرف رکھتے مجمع کے ساتھ چلتے تو سب سے پیچھے ہوتے اور کوئی سامنے سے آتا تو سلام پہلے آپ ہی کرتے‘ عاجزانہ صورت سے بیٹھتے غریب مسکینوں کی طرح بیٹھ کر کھانا کھاتے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا چپاتی کبھی نہیں کھائی تکلف کی طشتریوں میں کھانا نہیں کھایا ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کے خوف سے غمگین سے رہتے اکثر اوقات خاموش رہتے بلا ضرورت کلام نہ فرماتے جب بولتے تو اتنا صاف کہ سننے والا خوب سمجھ لے نہ اتنا لمبا کلام فرماتے کہ آدمی اکتا جائے نہ اتنا مختصر کہ بات ادھوری رہ جائے۔ بات میں کام میں برتائو میں سختی نہ فرماتے ۔ نرمی کو پسند فرماتے اپنے پاس آنے والے کی بیقدری نہ فرماتے نہ کسی کی بات کاٹتے البتہ اگر خلاف شرع ہوتی تو اس کو روک دیتے تھے یا وہاں سے خود اٹھ کر چلے جاتے اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت کو بہت بڑی خیال فرماتے ۔ کھانے پینے کی چیز میں عیب نہ نکالتے اگر دل چاہتا کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے مگر کسی دنیوی کام کے بگڑ جانے پر مثلاً کسی نے کوئی چیز توڑ دی یا کام بگاڑ دیا تو آپؐ کو غصہ نہ آتا تھا البتہ اگر کوئی بات دین کے خلاف ہوتی تو آپؐ کو سخت غصہ آتا۔ کبھی آپؐ نے اپنے ذاتی معاملہ میں غصہ نہیں کیا اور نہ اپنے نفس کا کسی سے بدلہ لیا۔ کسی سے ناراضگی کا اظہار فرماتے تو چہرہ موڑ لیتے تھے۔ لیکن زبان سے سخت سست نہیں کہتے تھے جب خوش ہوتے تو نیچی نگاہ کر لیتے نہایت ہی شرمیلے تھے زور سے کھکھلا کر نہ ہنستے بلکہ تبسم فرماتے سب میں ملے جلے رہتے تھے۔ (یعنی شان بنا کر نہیں رہتے تھے) بلکہ کبھی کبھی مزاح بھی فرما لیا کرتے تھے لیکن مذاق میں بھی سچی بات کہتے نماز میں اتنا لمبا قیام فرماتے کہ قدم مبارک ورم کر آتے ۔ نماز میں قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تو سینہ مبارک میں سے ہانڈی کھولنے کی سی آواز آتی تھی یہ خوف خدا کی وجہ سے حالت ہوتی مزاج مبارک میں اتنی تواضع تھی کہ امت کو یوں فرما دیا کہ مجھ کو بہت مت بڑھانا اگر کوئی غریب آتا یا بڑھیا آپؐ سے بات کرنا چاہتی تو سڑک کے ایک کنارے پر سننے کے لئے کھڑے ہو جاتے یا بیٹھ جاتے۔ اگر کوئی بیمار ہوتا تو اس کی بیمار پرسی فرماتے کسی کا جنازہ ہوتا تو اس میں شریک ہو جاتے کوئی بھی آدمی دعوت کرتا قبول فرما  لیتے کوئی جوکی روٹی یا بدمزہ چربی ہی کھلاتا تو دعوت سے عذر نہ فرماتے زبان مبارک سے بیکار بات نہ نکالتے سب کی دلجوئی فرماتے ایسا برتائو نہ کرتے جس سے کوئی گھبرا جائے ظالموں‘ شریروں سے خوش اسلوبی کے ساتھ اپنا بچائو بھی کرتے مگر سب کے ساتھ خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی سے پیش آتے ہر کام کو انتظام کے ساتھ کیا کرتے۔ بیٹھتے اٹھتے خدا کی یاد کرتے کسی محفل میں تشریف لے جاتے تو جہاں کنارے پر جگہ ملتی بیٹھ جاتے اگر بات کرنے والے کئی آدمی ہوتے تو باری باری سب کی طرف منہ کر کے بات کرتے ہر شخص کے ساتھ ایسا برتائو کرتے کہ ہر شخص کا یہی خیال ہوتا تھا کہ مجھ سے سب سے زیادہ آپ کو محبت ہے اگر کوئی بات کرنے بیٹھتا تو جب تک وہ نہ اٹھے آپؐ نہ اٹھتے ۔ گھر پر آرام کے لئے تکیہ لگا کر بیٹھ جاتے گھر کے کام اپنے ہاتھ سے کرا دیتے مثلاً بکری کا دودھ نکال لیا‘ اپنے کپڑے صاف کر لئے‘ اپنے کام تو اپنے ہاتھ ہی سے اکثر کیا کرتے تھے۔ کیسا ہی برا آدمی آپؐ کے پاس آتا اس سے اچھی طرح سے ملتے تھے اس کی دل شکنی نہ فرماتے تھے نہ سختی سے بولتے نہ سختی فرماتے ۔ آپؐ چلانے والے نہ تھے۔ برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے اپنے ہاتھ سے انسان تو کیا کسی جانور کو بھی نہیں مارا ہاں شرع کی رو سے ضرور سزا دیتے تھے اگر کوئی آپؐ پر زیادتی کرتا تو بدلہ نہ لیتے۔ ہر وقت ہنس مکھ ہو کر ملتے حالانکہ آخرت کی فکر رہتی تھی کسی کا عیب بیان نہ کرتے نہ بات منہ پر مارتے نہ کسی چیز کے دینے میں دریغ فرماتے۔ زبان مبارک سے وہی بات کہتے جس میں ثواب ملے کوئی پردیسی آتا اس کی خبر گیری کرتے اگر وہ کوئی بے ادبی کرتا برداشت فرماتے (خدا تعالیٰ ہم سب کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ حسین تھے اور سب سے زیادہ خوش خلق تھے نہ بہت لابنے تھے نہ پستہ قد تھے (بیہقی) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ لوگوں کی ایذا رسانی پر صبر کرنے والے تھے (ابن سعد)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے وقت قدم مبارک اٹھاتے تو قوت سے پائوں اکھڑتا تھا اور قدم اس طرح رکھتے تھے کہ ذرا آگے کو جھک جاتے تواضع کے ساتھ قدم بڑھا کر چلتے‘ اس طرح چلتے گویا کسی بلندی سے پستی میں اتر رہے ہو ں۔ جب کسی چیز کو کروٹ کی طرف دیکھتے تو پورا چہرہ پھیر کر دیکھتے‘ متکبروں کی طرح کنکھیوں سے نہ دیکھتے نگاہ نیچی رکھتے غایت حیا سے کسی کی طرف نگاہ بھر کر نہ دیکھتے تھے۔ جب کوئی ملتا تو پہلے آپؐ ہی سلام کرتے تھے۔ (شمائل ترمذی)
آپؐ کے کلام میں ترتیل ہوتی تھی۔ یعنی ٹھہر ٹھہر کر بات چیت فرماتے تاکہ مخاطب اچھی طرح سمجھ لے ۔ اس قدر ٹھہرتے بھی نہ تھے کہ مخاطب گھبرا جائے (بعض مرتبہ سمجھانے کیلئے) بات کو تین تین بار کہتے‘ کلام نہایت عمدہ طریقہ سے فرماتے۔ ہر موقعہ کا لحاظ رکھتے یعنی جیسا مخاطب ہوتا اس کی فہم کے مطابق کلام کرتے‘ مطلب یہ ہے کہ خوش اخلاقی کا اعلیٰ مرتبہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا ہوا تھا نہ پہلے کسی کو میسر ہوا تھا اور نہ آئندہ میسر ہوگا خوش اخلاقی کے ساتھ انتظام کا بڑا کمال حاصل تھا۔ ہر کام میں قواعد کی پابندی فرماتے۔ دوسرے سے کوئی کام میں کمی ہو جاتی تو زجر نہ فرماتے(ابودائود)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھوٹ بہت ناگوار ہوتا تھا (بیہقی)
آپؐ اپنے آپؐ کو دنیا میں مسافر کی طرح سمجھتے تھے ۔ دنیوی رونق سے تعلق نہ تھا (عزیزی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عبادت زیادہ محبوب تھی ایسی عبادت جو ہمیشہ ادا ہو سکے‘ (بخاری) جب آپؐ امام ہوتے تو بہت مختصر نماز پڑھاتے اور جب تنہا نماز پڑھتے تھے تو بہت طویل پڑھتے تھے (نسائی)
جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کے دروازے پر تشریف لے جاتے تو دروازے کے سامنے کھڑے نہ ہوتے۔ دائیں بائیں طرف کھڑے ہو جاتے اور فرماتے السلام علیکم (ابودائود) جب کوئی اس کے پاس آتا تو آپؐ اس کو خوش و خرم دیکھتے تو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے (تاکہ انسیت ہو جائے) (ابن سعد)
جب آپؐ کے پاس کوئی ایسا شخص آتا جس کا نام آپ کو محبوب نہ ہوتا تو اس کا نام تبدیل کر دیتے (ابن سعد)
جب کوئی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس مال زکوٰۃ اس غرض سے لاتاکہ مستحقین میں تقسیم فرمادیں تو آپ اس لانے والے کو دعا دیتے کہ اے اللہ فلاں شخص پر رحم فرما (احمد)
یہ ساری باتیں سنتیں ہیں۔ ہم کو عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے)
سنت:۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی مشکل پیش آتی تھی تو اس طرح کہتے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ بِنِعْمَتِہٖ تَتِمُّ الصَّالِحَاتِ اور جب کوئی ناگواری کی حالت پیش آتی تو فرماتے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ (حاکم)
سنت:۔ جب آپؐ کے پاس ہدیۃً کوئی پھل آتا اور وہ پھل اول مرتبہ ہی کھانے کے قابل ہوتا تو اس کو آپؐ آنکھوں سے لگاتے پھر دونوں ہونٹوں سے لگاتے اور فرماتے اَللّٰھُمَّ کَمَا اَرَیْتَنَا اَوَّلَہٗ فَاَرِنَا اٰخِرَہٗ پھر بچوں کو دے دیتے جو بھی بچے اس وقت آپؐ کے پاس ہوتے۔ (ابن السنی)
سنت:۔ جب آپؐ سر میں تیل لگانے کا قصد فرماتے تو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی میں اس تیل کو رکھتے اور پہلے ابروئوں پر پھر آنکھوں پر اور پھر سر پر لگاتے (مراد پلک ہیں) اس طرح جب داڑھی مبارک پر تیل لگانا چاہتے تو پہلے آنکھوں کو لگاتے پھر داڑھی میں لگاتے (شیرازی عزیزی)
سنت:۔ جب آپ کو خوشبو دار تیل پیش کیا جاتا تو پہلے آپؐ اس میں انگلیاں ڈبوتے پھر جہاں لگانا ہوتا انگلیوں سے استعمال فرماتے۔ (ابن عساکر)
سنت:۔ جب آپؐ لشکر کو رخصت فرماتے تو یہ دعا دیتے ۔
اَسْتَوْدِعُ اللّٰہَ دِیْنَکُمْ وَاَمَانَتَکُمْ وَخَوَاتِیْمَ اَعْمَالِکُمَ (ابودائود) جب آپ کسی کو رخصت کریں یہی پڑھ لیا کریں۔
سنت: جب بادشمالی (ہوا) چلتی تو یہ دعا کرتے اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّمَا اَرْسَلْتَ فِیْھَا (طبرانی)
سنت: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب اطلاع ہوتی کہ اہلبیت میں سے کسی نے جھوٹ بولا ہے تو برابراس سے رنجیدہ اورناراض رہتے یہاں تک کہ وہ توبہ کر لیتا جب توبہ کر لیتا تو آپؐ بدستور اس سے راضی ہو جاتے (احمد)
سنت: جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غمگین ہوتے تو داڑھی مبارک کو ہاتھ میں لے لیتے اور داڑھی کو دیکھتے تھے (شیرازی) ایک روایت میں ہے کہ غم کے وقت اکثر آپؐ داڑھی مبارک پر ہاتھ لے جایا کرتے تھے۔
سنت: جب آپ کو کوئی دشواری پیش آتی تو سر آسمان کی طرف لے جاتے اور کہتے سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ (ترمذی)
سنت: جب آپؐ کو کسی کے متعلق بری بات معلوم ہوتی تو یوں نہیں فرماتے تھے کہ فلاں شخص کو کیا ہوا ایسا ایسا کرتا ہے بلکہ یوں فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسا ایسا کرتے ہیں (ترمذی)
سنت: جب جاڑے کا موسم آتا تو جمعہ کی رات کو اندر سونا شروع فرماتے اور جب گرمی کا موسم آتا جمعہ کی رات کو باہر سونا شروع فرماتے۔ جب نیا کپڑا پہنتے تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے یعنی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ یااور کوئی شکر کا لفظ کہتے اور شکرانے کے دو نفل پڑھتے اور پرانا کپڑا کسی محتاج کو دے دیتے (ابن عساکر)
سنت : جب آپ کو زیادہ ہنسی آتی تو آپؐ منہ پر ہاتھ رکھ لیتے تھے (بغوی) سنتوں پر عمل کرنا کونسا مشکل کام ہے۔
سنت : جب آپ کسی مجلس میں بیٹھتے اور بات چیت فرماتے تو جس وقت وہاں سے اٹھنے کا ارادہ فرماتے تو دس سے لے کر پندرہ مرتبہ تک استغفار فرماتے (ابن السنی) ایک روایت میں یہ استغفار آیا ہے اَسْتَغْفِرُاللّٰہِ الَّذِی لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَالْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ
سنت:۔ جب آپ بیٹھ کر باتیں کرتے تو کثرت سے آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے (ابودائود) (آسمان کے عجائبات دیکھ کر قدرت الٰہی کی طرف توجہ فرماتے) جب آپ کو کوئی دشواری پیش آتی تھی تو آپؐ نماز نفل پڑھتے تھے اس عمل سے ظاہری و باطنی دنیوی و اخروی نفع ہوتا ہے اور پریشانی دور ہو جاتی ہے (ابودائود)
سنت: جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ازواج مطہرات کے پاس ہوتے تو بہت نرمی اور خاطر داری اور بہت اچھی طرح ہنستے بولتے تھے (ابن عساکر)
سنت: جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کی عیادت فرماتے تو اس سے آپؐ یہ کہتے تھے لَابَاْسَ طُھُوْرٌ اِنْشَآئَ اللّٰہُ (بخاری)
سنت: جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب دعا فرماتے تو پہلے اپنے لئے فرماتے پھر دوسروں کے لئے فرماتے (طبرانی)
سنت: جب آپؐ کو کوئی پریشانی یا خوف ہوتا تو اس طرح پڑھا کرتے ۔ اَللّٰہُ اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا (نسائی)
سنت: ازواج مطہرات میں سے کسی کی آنکھ دکھتی تو آرام ہونے تک ان سے ہم بستری نہ فرماتے تھے (ابن مندہ)
سنت: جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنازے کے ساتھ چلتے تو خاموش رہتے اور اپنے دل میں موت کے متعلق گفتگو فرماتے تھے (ابن سعد)
سنت: جب آپؐ کو چھینک آتی تو ہاتھ یا کپڑا منہ پر رکھ لیتے اور آواز کو پست فرماتے تھے (ترمذی)
سنت: آپؐ کسی بات سے راضی ہوتے تو خاموشی اختیار کرتے (ابودائود)
سنت: جب آپؐ کو کھڑے ہوئے غصہ آتا تو بیٹھ جاتے اور بیٹھے ہوئے غصہ آتا تو لیٹ جاتے تھے (تاکہ غصہ فرو ہو جائے‘ ابن ابی الدنیا)
سنت: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو خود بھی اور دوسروں کو بھی فرماتے کہ اپنے بھائی کے لئے استغفار کرو اور ثابت قدم رہنے کی دعا کرو (اللہ اسے منکر نکیر کے جواب میں ثابت قدم رکھے) (ابودائود)
سنت: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جب آپؐ کے صحابہؓ میں سے کوئی آپؐ سے ملتا اور وہ ٹھہر جاتا تو اس کے ساتھ آپ بھی ٹھہر جاتے اور جب تک وہ نہ جاتا آپؐ ٹھہرے ہی رہتے اور جب کوئی آپؐ کے ہاتھ میں ہاتھ دینا چاہتا تو آپؐ اپنا ہاتھ دے دیتے اور جب تک وہ خود نہ ہاتھ چھوڑے آپؐ ہاتھ نہیں چھڑاتے تھے۔ ایک روایت میں ہے آپؐ اپنا کسی سے چہرہ نہ پھیرتے جب تک وہ نہ پھیرتا اور کوئی چپکے سے بات کہنا چاہتا تو آپؐ کان اس کی طرف کر دیتے تھے اور جب تک وہ فارغ نہ ہوتا آپؐ کان نہیں ہٹاتے تھے (نسائی)
سنت: جب صحابہ کرامؓ ملتے تو آپؐ ان سے مصافحہ کرتے اور دعا فرماتے تھے (نسائی) اور مصافحہ سے پہلے سلام بھی کرتے (طبرانی)
سنت: جب کسی کا نام نہ آتا اور اس کو بلانا ہوتا یا ابن عبداللہ (اے اللہ کے بندے کے بیٹے) کہہ کر بلاتے (ابن السنی)
سنت: جب آپؐ چلتے تھے تو لوگوں کو آگے سے ہٹایا نہیں جاتا تھا (طبرانی)
سنت: آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین دن سے قبل قرآن شریف ختم نہ کرتے تھے۔ (ابن سعد)
سنت: آپ جائز کام کو منع نہیں فرماتے تھے اگر کوئی آپؐ سے سوال کرتا اگر اس کے سوال کو پورا کرنے کا ارادہ ہوتا تو ہاں کہہ دیتے ورنہ خاموش ہو جاتے (ابن سعد)
سنت والی زندگی اپنانے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر مطلوبہ کیٹگری میں دیکھئے ۔ اور مختلف اسلامی مواد سے باخبر رہنے کے لئے ویب سائٹ کا آفیشل واٹس ایپ چینل بھی فالو کریں ۔ جس کا لنک یہ ہے :۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M
