مصافحہ و معانقہ کے متعلق سنتیں
حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کیا مصافحہ کا دستور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں تھا؟ انہوں نے فرمایا ہاں۔(الصحیح للامام البخاری)
سلام کے ساتھ عموماً مصافحہ بھی ہوتا ہے اور کبھی معانقہ بھی۔ آج کے دور میں ایک طرف انگریزوں کی طرف سے رواج چلا کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا چاہیے۔ دوسری طرف بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ مصافحہ تو ایک ہاتھ سے کرنا سنت ہے دونوں ہاتھوں سے کرنا سنت نہیں۔ یہ خیال سراسر غلط ہے اس لیے کہ حدیث میں مفرد کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے اور تثنیہ کا بھی۔ لیکن کسی حدیث میں واضح طور پر کہیں نہیں آیا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ سے مصافحہ کیا جب کہ کئی روایتوں میں دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کا ذکر موجود ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے التحیات اس طرح یاد کرائی کہ ’’کفٰی بینہ کفیہ‘‘ یعنی میرے ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھے۔ (بخاری)
صحیح بخاری میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مصافحہ کے بیان پر جو باب قائم کیا ہے اس میں حضرت حماد بن زید رحمۃ اللہ علیہ کا حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا بیان کیا ہے۔ (بخاری) اگر کوئی شخص ایک ہاتھ سے مصافحہ کرلے تو جائز ہو جائے گا لیکن طریقہ وہ اختیار کرنا چاہیے جو سنت سے زیادہ قریب ہو اور جس طریقہ کو علماء ، فقہاء اور بزرگان دین نے سنت سے زیادہ قریب سمجھ کر اختیار کیا ہو۔
مصافحہ کرنے سے متعلق ہدایات
۔(۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مصافحہ کیا کرو اس سے کینہ دور ہوتا ہے اور ہدیہ و تحفہ (ایک دوسرے کے پاس) بھیجا کرو اس سے محبت بڑھتی ہے اور دشمنی جاتی رہتی ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)… (۲) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ! ہم میں سے جب کوئی کسی مسلمان بھائی سے ملاقات کرے یا کسی دوست سے ملے تو کیا وہ (اس کی تعظیم و تکریم) کے لیے سر جھکائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ اس شخص نے کہا کہ کیا اس سے معانقہ کرے (یعنی اس سے گلے ملے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ اس شخص نے پھر پوچھا کہ کیا اس کے ہاتھ کو ہاتھ میں لے کر مصافحہ کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ (ترمذی) زرین رحمۃ اللہ علیہ نے اتنا اور زیادہ نقل کیا ہے مگر وہ بھائی یا دوست سفر سے آیا ہو تو معانقہ کرسکتا ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح)
۔(۳) جب دو مسلمان ملیں اور مصافحہ کریں تو ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے ان کو بخش دیا جاتا ہے اور ابوداؤد کی روایت کے یہ الفاظ ہیں جب دو مسلمان باہم ملیں اور مصافحہ کریں اور اللہ کی حمد کریں اور بخشش چاہیں تو ان کو بخش دیا جاتا ہے۔ (ابوداؤد، کتاب الادب)
معانقہ بھی سنت ہے
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مدینہ آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے (جوش محبت سے) دروازے پر پہنچے، ان سے معانقہ کیا (یعنی گلے لگایا) اور پیشانی پر بوسہ دیا۔ (ترمذی) دوسرا قصہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے کہ حبشہ سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گلے لگایا اور پیشانی پر بوسہ دیا۔ (ابوداؤد)
فائدہ:…ان مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ جب آپس میں مقیم ہونے کی صورت میں ملاقات ہو تو سلام کے ساتھ ساتھ مصافحہ کرنا چاہیے ، اور اگر کوئی عزیز یا دوست سفر سے آیا ہو تو سلام کے ساتھ ساتھ معانقہ بھی کرنا چاہیے۔ جیساکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جب آپس میں ملاقات کیا کرتے تھے تو مصافحہ کیا کرتے تھے اور جب سفر سے واپس آتے تو آپس میں معانقہ کیا کرتے تھے۔(اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم)
۔(۵) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ جب کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کرتا تو آپ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے اس وقت تک نہ کھینچتے تھے جب تک وہ خود اپنا ہاتھ نہ کھینچ لے۔
فائدہ: معلوم ہوا کہ مصافحہ میں جلد بازی نہ کریں بلکہ شگفتگی کے ساتھ مصافحہ کرنا چاہیے۔ (۶) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا اس حدیث بالا میں یہ وصف بھی بیان فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ملاقات کے وقت اپنا چہرۂ مبارک اس وقت تک نہیں پھیرتے تھے جب تک کہ سامنے والا اپنا چہرہ نہ پھیرلے۔ یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اس سنت پر عمل کرنے میں بڑا مجاہدہ ہے لیکن انسان کی اپنی طرف سے یہی کوشش ہونی چاہیے کہ جب تک ملاقات کرنے والا خود ملاقات کرکے رُخصت نہ ہو اس وقت تک اپنا چہرہ اس سے نہ پھیرے۔ البتہ کہیں مجبوری ہو جائے تو دوسری بات ہے۔ (السنن للامام ابن ماجہ)
۔(۷) اپنے کسی عزیز یا کسی دوست کا پیشانی پر بوسہ لینا بھی سنت ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے نواسے) حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بوسہ لیا۔ اس وقت آپ کے پاس اقرع بن حابس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے ہوئے تھے کہنے لگے میرے دس بیٹے ہیں، میں نے ان میں سے کبھی کسی کا بوسہ نہیں لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا جو شخص (اولاد یا اللہ کی مخلوق پر) مہربانی یا شفقت نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ (مسلم)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
سنت والی زندگی اپنانے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر مطلوبہ کیٹگری میں دیکھئے ۔ اور مختلف اسلامی مواد سے باخبر رہنے کے لئے ویب سائٹ کا آفیشل واٹس ایپ چینل بھی فالو کریں ۔ جس کا لنک یہ ہے :۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M
