حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ ابو دائود اور ترمذی وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور سلطنت روم کے درمیان جنگ بندی کا ایک معاہدہ ہوا۔۔۔۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے صلح کی مدت کے دوران ہی فوجوں کو سرحد کی طرف روانہ کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔ مقصد یہ تھا کہ جونہی صلح کی مدت ختم ہو گی فوراً حملہ کر دیا جائے گا رومی حکام اس خیال میں ہوں گے کہ ابھی تو مدت ختم ہوئی ہے۔۔۔۔ اتنی جلدی مسلمانوں کا ہم تک پہنچنا ممکن نہیں، اس لئے وہ حملہ کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے اور اس طرح فتح آسان ہو جائے گی۔۔۔۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جیسے ہی مدت پوری ہوئی آپ نے فوراً پوری قوت سے رومیوں پر یلغار کر دی۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ رومی اس ناگہانی حملے کی تاب نہ لا سکے اور پسپا ہونے لگے۔۔۔۔ عین اسی حالت میں جبکہ حضرت معاویہؓ کا لشکر فتح کی امنگیں دل میں لئے آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔۔ پیچھے سے ایک شہسوار آتا دکھائی دیا جو پکار پکار کر یہ کہہ رہا تھا کہ ’’اللہ اکبر اللہ اکبر وفاء لا غدر ‘‘(اللہ اکبر اللہ اکبر مومن کا شیوہ وفا ہے غدر و خیانت نہیں) یہ شہسوار قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ حضرت عمرو بن عبسہؓ صحابی ہیں۔۔۔۔ حضرت معاویہؓ کی ذاتی رائے میں یہ چیز غدر و خیانت نہیں تھی۔۔۔۔ کیونکہ حملہ جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے بعد ہو رہا تھا۔۔۔۔ لیکن حضرت عمرو بن عبسہؓ نے فرمایا۔۔۔۔ ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص کا کسی قوم سے کوئی معاہدہ ہو تو وہ اس عہد کو نہ کھولے نہ باندھے (یعنی اس کے خلاف کوئی حرکت نہ کرے) تاوقتیکہ یا اس معاہدے کی مدت گزر جائے یا کھلم کھلا معاہدے کے اختتام کا اعلان کر دیا جائے۔۔۔۔‘‘
حضرت عمرو بن عبسہؓ کا مقصد یہ تھا کہ اس حدیث کی رو سے جنگ بندی کے دوران جس طرح حملہ کرنا ناجائز ہے اسی طرح دشمن کے خلاف فوجیں لے کر روانہ ہونا بھی جائز نہیں۔۔۔۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کیلئے وہ مرحلہ کس قدر نازک تھا اس کا اندازہ بھی شاید ہم آپ اس وقت نہ کر سکیں۔۔۔۔ حضرت عمرو بن عبسہؓ کی نصیحت اور مطالبہ پر عمل کرنے سے بظاہر ان کی ساری اسکیم فیل ہو رہی تھی ان کا وہ منصوبہ پیوند زمین ہو رہا تھا جو انہوں نے نہ جانے کب سے سوچ رکھا ہو گا۔۔۔۔ ساری فوج کے مشقت آمیز سفر کی محنت اکارت جا رہی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لشکر کی فتح کی امنگیں مجروح ہو رہی تھیں۔۔۔۔ لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت ؐ کا یہ ارشاد سننے کے بعد ان تمام مصلحتوں کو قربان کر کے لشکر کو فوراً واپسی کا حکم دے دیا۔۔۔۔ (مشکوٰۃ المصابیح۔۔۔۔ باب الایمان)
اس وقت نہ کوئی حکمت و مصلحت آڑے آئی۔۔۔۔ نہ ارشاد نبویؐ میں کسی تاویل کا کوئی خیال آیا، بلکہ انہوں نے اپنے اس عظیم اقدام کو فوراً واپس لے لیا اور مفتوحہ علاقہ تک دشمن کے حوالے کر دیا۔۔۔۔

دوسرا واقعہ

حضرت مرثد بن ابی مرثد غنوی رضی اللہ عنہ مہاجرین صحابہؓ میں سے ہیں۔۔۔۔ مکہ مکرمہ میں اسلام سے پہلے عناق نامی ایک عورت سے ان کے تعلقات تھے۔۔۔۔ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کسی کام سے مکہ مکرمہ بھیجا وہاں عناق ان سے ملی اور حسب سابق اپنے تعلقات جتائے لیکن حضرت مرثدؓ نے جواب میں فرمایا کہ: ’’اسلام میرے اور تمہارے درمیان حائل ہو چکا ہے‘‘۔۔۔۔ اس پر عناق نے ان سے نکاح کی درخواست کی لیکن حضرت مرثدؓ نے فرمایا کہ ’’ میں نکاح پر راضی ہوں لیکن جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ نہ کر لوں اس وقت تک کچھ نہیں کہہ سکتا۔۔۔۔‘‘
چنانچہ مدینہ منورہ پہنچ کر انہوں نے آپؐ سے مشورہ کیا اس پر یہ آیت قرآنی نازل ہوئی کہ :
وَلاَ تَنْکِحُوْا الْمُشْرِکٰتِ حَتَّی یُؤْمِنَّ یعنی مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں) چنانچہ حضرت مرثد رضی اللہ عنہ نے اس امر الٰہی کے سامنے سرجھکا کر نکاح کا ارادہ ترک کر دیا۔۔۔۔ (تفسیر مظہری ۲۵۵ جلد ۱)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سیرت طیبہ کی اتباع اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک ادا کی نقل اتارنے کا اس قدر شوق اور اتباع سنت کا اس قدر اہتمام تھا کہ وہ اس معاملہ میں غیروں کے استہزاء سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے بلکہ مخالف سے مخالف ماحول میں اپنی وضع اور اپنے طرز زندگی پر ثابت قدم رہے۔۔۔۔

تیسرا واقعہ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت جثامہ بن مساحق رضی اللہ عنہ کو ہر قل بادشاہ روم کے پاس ایلچی بنا کر بھیجا۔۔۔۔ وہ ہر قل کے دربار میں پہنچے تو ان کے اکرام کیلئے ہرقل نے انہیں سونے کی ایک کرسی پر بٹھایا۔۔۔۔ حضرت جثامہؓ فرماتے ہیں کہ میں شروع میں بے خیالی کے عالم میں اس کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔۔ لیکن جب احساس ہوا کہ یہ سونے کی کرسی ہے تو اس سے فوراً اتر کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔ ہرقل نے میرے اس عمل پر ہنس کر پوچھا کہ ہم نے تو اس کرسی کے ذریعہ تمہارا اکرام کیا تھا۔۔۔۔ تم اتر کیوں گئے؟ میں نے جواب میں کہا:
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا ہے کہ آپؐ نے اس جیسی (سونے کی چیز) پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔۔۔۔‘‘ (کنز العمال)

سنت والی زندگی اپنانے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر مطلوبہ کیٹگری میں دیکھئے ۔ اور مختلف اسلامی مواد سے باخبر رہنے کے لئے ویب سائٹ کا آفیشل واٹس ایپ چینل بھی فالو کریں ۔ جس کا لنک یہ ہے :۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

مختلف سنتیں

مختلف سنتیں سنت-۱ :بیمار کی دوا دارو کرنا (ترمذی)سنت- ۲:مضرات سے پرہیز کرنا (ترمذی)سنت- ۳:بیمار کو کھانے پینے پر زیادہ زبردستی مت کرو (مشکوٰۃ)سنت- ۴:خلاف شرع تعویذ‘ گنڈے‘ ٹونے ٹوٹکے مت کرو (مشکوٰۃ) بچہ پیدا ہونے کے وقت سنت-۱: جب بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان...

read more

حقوق العباد کے متعلق سنتیں

حقوق العباد کے متعلق ہدایات اور سنتیں اولاد کے حقوق حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں کہ: ٭ مسلمانو! خدا چاہتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے ساتھ برتائو کرنے میں انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔۔۔۔ ٭ جو مسلمان اپنی لڑکی کی عمدہ تربیت کرے اور اس کو عمدہ تعلیم دے اور...

read more

عادات برگزیدہ خوشبو کے بارے میں

عادات برگزیدہ خوشبو کے بارے میں آپ خوشبو کی چیز اور خوشبو کو بہت پسند فرماتے تھے اور کثرت سے اس کا استعمال فرماتے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔۔۔۔ (نشرالطیب)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخر شب میں بھی خوشبو لگایا کرتے تھے۔۔۔۔ سونے سے بیدار ہوتے تو قضائے حاجت سے...

read more