ستر سال….. ن کی تہجد قضاء نہ ہوئی (309)۔
بزرگان دین کے تذکرے ہمیشہ دل کو سکون اور ایمان کو تازگی بخشتے ہیں۔ پیر و مرشد حضرت سید قمرالدین شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا شمار ان کامل اولیاء اللہ میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش میں گزارا۔
حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ نے خیرالمدارس ملتان میں اپنی زندگی کا اکثروقت گزارا اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ آپ کو بانی خیرالمدارس حضرت مولانا خیر محمد جالندھری رحمہ اللہ کے خاص تربیت یافتہ اور خلفاء میں شامل ہونے کا شرف حاصل تھا۔
حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کو دیگر کئی جید بزرگوں(مولانا علی المرتضیٰ رحمہ اللہ تعالیٰ ودیگر) سے بھی خلافت اور خط و کتابت کی سعادت حاصل تھی، جو ان کی روحانیت میں اعلیٰ مقام کاثبوت ہے۔
جب2013 میں مجھے جامعۃ الرشید جانے کا اتفاق ہوا، تو حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے از راہ شفقت وہاں پر داخلہ کے لئے ایک سفارشی رقعہ عنایت فرمایا۔ جب میں نے وہ رقعہ حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ حضرت مولانا قاسم صاحب دامت برکاتہم العالیہ (ناظم تعلیمات ) کو پیش کیا تو انہوں نے حیرت اور خوشی کا اظہارفرمایا۔اور حضرت شاہ صاحب کی خیریت دریافت کی۔
حضرت مولانا قاسم صاحب مدظلہ العالی نے فرمایا کہ حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ کی خلافت ملنا بہت ہی مشکل کام تھا، اور بالخصوص غیر عالم کے لیے تو یہ ایک نایاب اعزاز تھا۔ تاہم، حضرت سید قمرالدین شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ ان دو خوش نصیب ہستیوں میں سے تھے جنہیں غیر عالم ہونے کے باوجود بھی خلافت عطا کی گئی۔
حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی زندگی کرامات اور برکات سے معمور تھی، مگر جو بات ہمیشہ میرے دل میں نقش رہی، وہ ان کی عبادت کا غیر معمولی ذوق تھا۔ نوے سال کی عمر تک تمام نمازیں بشمول نوافل کھڑے ہوکر ادا کرتے تھے۔
خیرالمدارس کی پرانی مسجد میں امام کے دائیں جانب ان کی جگہ ہمیشہ مقرر ہوتی تھی، اور یہ مقام ان کے لیے مخصوص اس طور پر نہیں تھا کہ وہاں کوئی علامت رکھی گئی ہو۔ بلکہ حضرت خود ہی اس چیز کا اہتمام فرماتے تھے کہ اذان کے فوراً بعد حجرہ سے روانہ ہو جاتے اور سب سے پہلے مسجد میں پہنچنے کی کوشش فرماتے۔
تہجد کا بھی ایسا معمول تھا کہ ایک صاحب نے بتایا کہ وہ اپنے بچپن سے حضرت کے ساتھ ہیں۔ اور انہوں نے سفر و حضر میں تہجد کا ترک ہوتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔حضرت کو اکیس سال کی عمر میں حضرت مولانا خیر محمد جالندھری رحمہ اللہ سے خلافت ملی اور خلافت والے خط سے ہی یہ بات واضح ہوتی تھی کہ اُسوقت سے تہجد کا معمول پختہ ہو چکا تھا۔
اکیس سال کی عمر سے لے کر اکانوے سال کی عمر تک آپ نے نہ صرف فرائض و نوافل اور سنن کی پابندی کی، بلکہ تہجد کا بھی اہتمام فرمایا۔یعنی وہ ایسے ولی تھے جن کی ستر سال تہجد بھی قضاء نہ ہوئی۔
حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی زندگی ہم سب کے لیے ایک روشن مثال ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان کی سیرت و کردار سے سبق حاصل کرنے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اللہ تعالیٰ  حضرت کے درجات کو مزیدبلند فرمائے۔ آمین۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

