وفاق المدارس ہمارا ہے …اور مجمع بھی ہمارا ہے (206)۔

وفاق المدارس ہمارا ہے …اور مجمع بھی ہمارا ہے (206)۔

اس وقت مدارس پاکستان کے درمیان جو اختلافی موضوع زیر بحث ہے ۔ وہ کوئی اتنا سنجیدہ تو ہے نہیں کہ جس سے امت دو فرقوں میں بٹ جائے یا علمائے کرام کا اتحاد ٹوٹ جائے ۔ بلکہ خلاصۃً بس یہ کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ اسلام میں بہت سارے علمائے کرام ایسے گزرے ہیں جو شاہان وقت سے بہت زیادہ فاصلہ بنا کررہتے تھے جس کی ایک تابندہ مثال تارک الدنیا حضرت سعید بن المسیب (جلیل القدر تابعی)رحمہ اللہ تعالیٰ ہیں ۔ اور کئی ایسے بزرگ بھی گزرے ہیں جنہوں نے سلاطین وقت کے ساتھ بھی تعلقات کو قائم رکھا ۔ دونوں قسم کے علمائے کرام ہماری تاریخ کا حصہ ہیں اور جن جن علمائے کرام نے خلوص کے ساتھ دین کی خدمت کی ہے تو وہ منجانب اللہ قبولیت کے پروانے سے سرفراز ہوئے ہیں ۔
حالیہ اختلاف بھی اسی طرز کا ہے کہ وفاق المدارس العربیہ اور اسکی تاریخ ایسی رہی ہے کہ ہمیشہ خود مختار اور خود کفیل رہے ہیں ۔ حکومت سے ذرہ برابر امداد لئے بغیر لاکھوںکروڑوں لوگوں کو علم کی روشنی سے منور کیا ہے ۔ جو کہ ایک بہت اچھا جذبہ ہے جس سے دین اسلام پھیل رہا ہے ۔
مگر جامعۃ الرشید کے استاذ محترم حضرت مولانا مفتی عبدالرحیم صاحب نے اس خیال کو ترجیح دی ہے کہ ریاست کے ساتھ جڑ کر دین کی خدمات کو زیادہ احسن اور محفوظ طریقے سے انجام دیا جا سکتا ہے ۔ اس میں مسائل کم ہوتے ہیں اور ترقی کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں ۔ اُنکی یہ سوچ بھی اپنی جگہ پر اہمیت کی حامل ہے اور وہ بھی بزرگان دین کے تربیت یافتہ، معتمد اور قابل قدر شخصیت ہیں ۔
اُنہوں نے اپنے اکثر بیانات میں یہ اعتراف کیا ہے کہ اگرچہ ہم مروجہ سوچ سے الگ چل رہے ہیں مگر ہمارے اس راستے پر چلنے والے لوگوں کی مثالیں بھی تاریخ میں موجود ہیں ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یقیناً جامعۃ الرشید کا مقصد بھی دین کی خدمت اور مسلمانوں میں تعلیم یافتہ رجال کار کو تیار کرنا ہے ۔ اور وفاق المدارس کا بھی یہی مقصد ہے تو مقصود دونوں کا مشترک ہے ۔ طریق الوصول اگرچہ مختلف ہو لیکن مقصود ایک ہی ہے ۔ جیسے کہ ایک شخص ٹرین سے جائے اور دوسرا بس سے جائے ۔ دونوں کی منزل مقصود لاہور ہے تو وہ لاہور ہی پہنچیں گے ۔ جس کا دل چاہے ٹرین پر چلا جائے اور جس کا دل چاہے وہ بس پر چلا جائے ۔
اس چیز کو وجہ اختلاف بنانے والے نہ تو وفاق المدارس کے طلبائے کرام ہیں اور نہ ہی جامعۃ الرشید والے ہیں ۔ بلکہ یہ وہ خفیہ طبقہ ہے جو علمائے کرام کے درمیان تفرقہ کو ہوا دیتا ہے اور کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔
تو دوستو! میری رائے اس معاملہ میں یہی ہے کہ وفاق المدارس العربیہ کے تمام اشخاص اور ذمہ داران ہمارے اکابر ہیں ۔ اور جامعۃ الرشید بھی ہمارا ہی ہے۔ میں نے آٹھ سال مدارس میں گزارے ہیں اور یہ کہہ سکتا ہوں کہ اُن میں سے دو سال جو جامعۃ الرشید میں گزارے تھے وہ میری زندگی کے سب سے یادگار ایام تھے ۔ میرے علاوہ اس وقت ہزاروں طلبائے کرام ایسے ہوں گے کہ جنہوں نے جامعۃ الرشید کے ذریعے سے ہی وفاق المدارس کا امتحان دیا ہوگا ۔ تو ان تمام چیزوں کو اگر جمع کیا جائے تو سمجھ لیں کہ فی الواقع کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ بلکہ راستہ الگ الگ ہورہاہے لیکن مقصود دونوں کا ایک ہی ہے ۔
تو عام علمائے کرام کو چاہئے کہ وہ اس طرح کی فضا بنانے سے گریز کریں کہ جو وفاق المدارس کے ساتھ ہے وہ مجمع العلوم الاسلامیہ کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔ اور جو مجمع کے ساتھ ہے وہ وفاق المدارس کے مخالف کھڑا ہے ۔ اس سوچ کو ختم کردیں ۔
مجمع العلوم بھی ہمارا ہے اور وفاق المدارس بھی ہمارا ہے ۔ ہم سب ایک دوسرے سے دین اسلام کے نام پر جڑے ہوئے ہیں اور جو بھی کوئی تنظیم، ادارہ یا جماعت دین کی خدمت کررہی ہے وہ ہماری اپنی جماعت ہی ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کا صحیح فہم نصیب فرمائے ۔ امت کے تمام افراد کو حقیقی اتحاد سے رہے کی توفیق عطا فرما دے ۔ آمین ۔

نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326)۔

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326) دوکلرک ایک ہی دفتر میں کام کیا کرتے تھے ایک بہت زیادہ لالچی اور پیسوں کا پجاری تھا۔ غلط کام کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتاتھا۔ جہاں کہیں خیانت اور بددیانتی کا موقع ہوتا تو بڑی صفائی سے اُسکا صاف ستھرا...

read more

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔ مدرسہ استاذ اور شاگرد کے تعلق کانام ہے۔جہاں پر کوئی استاذ بیٹھ گیا اور اس کے گرد چند طلبہ جمع ہوگئے تو وہ اک مدرسہ بن گیا۔مدرسہ کا اصلی جوہر کسی شاندار عمارت یا پرکشش بلڈنگ میں نہیں، بلکہ طالبعلم اور استاد کے...

read more

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔ خانقاہی نظام میں خلافت دینا ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب نسبت بزرگ اپنے معتمد کو نسبت جاری کردیتے ہیں کہ میرے پاس جتنے بھی بزرگوں سے خلافت اور اجازت ہے وہ میں تمہیں دیتا ہوں ۔یہ ایک بہت ہی عام اور مشہور...

read more