شادی کے فوراً بعد نوجوانوں کو یہ مسئلہ ہوتا ہے (202)۔
شادی خانہ آبادی، یعنی شریعتِ اسلامیہ کا نکاح کا بندھن ایک ایسا مضبوط رشتہ ہے جو نہ صرف دو افراد کو بلکہ دو خاندانوں کو جوڑتا ہے۔ یہ مرد و عورت کے لیے سکون اور اطمینان کا باعث بنتا ہے اور ایک خوشگوار معاشرے کی تشکیل میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ لیکن اس سے متعلق کچھ مسائل بھی ہیں جن کا تذکرہ اور ان کا حل ضروری ہے۔
نوجوانوں کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ شادی کے بعد بچے کی پیدائش کے حوالے سے خاندان اور معاشرے کا دباؤ بڑھنے لگتا ہے۔ یوں کہا جائے کہ شادی بعد میں ہوتی ہے، لیکن بچے کی منصوبہ بندی پہلے شروع ہو جاتی ہے۔ پھر جب شادی ہو گئیتو ہر دوسرے دن خاندان کے کسی نہ کسی فرد کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ بچہ ہوا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہوا تو کیوں نہیں ہوا؟ اس مسلسل پوچھ گچھ سے نئے جوڑے پر ذہنی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔
اگر میاں بیوی آپس میں یہ بات طے کر بھی لیں کہ وہ اس معاملے میں جلدی نہیں کریں گے، تو پھر بھی والدین اور رشتہ داروں کی طرف سے سوالات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔بعض اوقات تو لوگ اس جوڑے کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں، کوئی خاوند کو طعن کرتا ہے تو کوئی عورت کو منحوس کہہ کر گالم گلوچ کرتا ہے۔اور کچھ یہ سمجھتے ہیں کہ انکی آپس میں بنی نہیں ہے۔ یہ رویہ بدلنے کی ضرورت ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق، شادی کے بعد ایک سال تک حمل کا نہ ٹھہرنا عام بات ہے اور اسمیں کوئی پریشانی یا تشویش نہیں ہونی چاہئے۔ امریکی تولیدی میڈیسن سوسائٹی (American Society for Reproductive Medicine) کے مطابق بانجھ پن(حمل نہ ٹھہرنے کے مرض)کی تشخیص تب کی جاتی ہے جب ایک سال تک باقاعدہ تعلقات کے باوجود حمل نہ ٹھہرے۔ بعض ماہرین دو سال تک انتظار کرنے کی بھی تجویز دیتے ہیں۔ اس لیے میاں بیوی سے دو سال سے پہلے یہ سوال کرنا کہ بچہ کیوں نہیں ہو رہا، قطعاً مناسب نہیں۔میرے اپنے مشاہدات میں کئی ایسے شادی شدہ جوڑے ہیں جن کا تین سال بعد بچہ پیدا ہوا ۔ میرے ایک عزیز بالکل مایوس ہو چکے تھے اور امید چھوڑ دی تھی، لیکن تقریباً آٹھ سال بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں نعمتِ اولاد سے نواز دیا اور پھر ترتیب وار بچے پیدا ہوتے رہے۔
مجھے یاد ہے کہمیرے ایک استاذ محترم بہت نحیف تھے۔ انکی بارہ سال تک اولاد نہہوئی، انہوں نے اپنی زندگی اسی طرح ٹھیک کرلی تھی۔ لیکن پھر اللہ نے انہیں جڑواں بیٹے عطا کر دیے۔
ایک اور دوست جو کہ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، ان کی صحت بھی ماشاء اللہ بہترین تھی۔ اچھے خاصے زمینداراوراہل ثروت لوگ تھے۔ لیکن ان کی اولاد نہیں تھی، جس کی وجہ سے وہ پریشان رہتے تھے۔ معمول کے سارے ٹیسٹ بھی کلیئر تھے۔ ان کے بھائی کے چار بچے تھے اور وہ اپنے بچوں کو ان کے ساتھ کھیلنے نہیں دیتے تھے۔ سات سال بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی اولاد سے نواز دیا۔
ان تمام مشاہدات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان لوگوں نے صبر سے کام لیا اورانہوں نے علاج معالجے میں غلو نہیں کیا۔ البتہ جو لوگ علاج میں حد سے زیادہ مشغول ہو جاتے ہیں، ان کو اکثر پیچیدگیوںکا سامنا کرنا پڑتا ہے۔میڈیکل ریسرچ سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذہنی دباؤ اور تناؤ تولیدی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔اسلئے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ شادی کے فوراً بعد بچے کی پیدائش کوئی ایسا اصول نہیں جو مرد کی مردانگی یا عورت کی خوش بختی کا ثبوت ہو۔ شادی شدہ جوڑوں کو اس معاملے میں پریشان نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی ان پر کسی قسم کا دباؤ ڈالنا چاہیےورنہ الٹامنفی اثرات سامنے آئینگے۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

