مسلمان تاجر کا مقصد صرف پیسہ کمانا نہیں (182)۔

مسلمان تاجر کا مقصد صرف پیسہ کمانا نہیں (182)۔

غیر مسلموں کی معیشت صرف فروخت یعنی (Sales) پر منحصر ہوتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دینِ اسلام کی صورت میں ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں جن کے تحت مسلمانوں کی تجارت اور معاشی سرگرمیوں کا مقصد صرف اشیاء کی فروخت نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کی خدمت اور برکاتِ الٰہیہ کا حصول بھی شامل ہے۔
ہر مسلمان کو یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ جھوٹ بول کر، خیانت کرکے یا حیلے بہانے کرکےکوئی بھی عیب دار چیز نہ بیچے۔ اگرچہ اس طرح پیسہ آ جائے گا، لیکن اس میں برکت نہیں ہوگی۔ اس لیے ان امور کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سبھی ایسا کرتے ہیں، اور ان کے دل میں یہ خیال ہوتا ہے کہ اتنا سا جھوٹ تو غیر مسلم بھی بولتےہیں اور ان کے کاروبار چمکتے ہیں۔ لیکن دوستو! کلمہ طیبہ “لا الہ الا اللہ” پڑھنے کےبعد جو ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنی روزی کو حلال اور پاک بنائیں۔
پیسے جمع کرنے کی بجائے برکتوں کے حصول کی کوشش کریں۔ گاہک کو کبھی بھی ایسی چیز نہ بیچیں جو آپ خود اپنے لیے پسند نہیں کرتے ۔ ایسے عیب کے ساتھ چیز نہ دیں جس کے بارے میں اگر آپ کو پتہ چلتا تو آپ اسے نہ خریدتے۔
بلکہ بہترین سے بہترین چیز فروخت کریں۔ آپ کو اپنی مصنوعات پر اتنا اعتماد ہونا چاہیے کہ گاہک کو ایک یا دو دن کا وقت دینے میں ہچکچاہٹ نہ ہو۔ کہہ دیں کہ اگر تین دن میں اس چیز میں کوئی خرابی آپ کو معلوم ہو جائے تو واپس لے آئیں، میں خوشی سے واپس کر لوں گا۔
ہاں! اس میں شرط یہ ہے کہ خریدار جو عیب دکھائے، وہ خریدنے کے وقت موجود ہو۔ اگر مارکیٹ کے ماہرین سے پتہ چل جائے کہ عیب خریدنے کے بعد خریدار کی غلطی سے پیدا ہوا ہے تو پھر واپسی نہیں ہوگی۔
اگر یہ ثابت ہو کہ عیب پہلے سے موجود تھا تو فروخت کنندہ کو چاہیے کہ فوراً چیز واپس لے لے اور رقم واپس کر دے۔ بظاہر اس عمل میں نقصان نظر آتا ہے کہ چیز واپس لے لی گئی اور معیوب چیز اب شاید کوئی نہ خریدے۔ لیکن گہرائی میں دیکھیں تو اس سے دوکاندار کے علم میں اضافہ ہوتا ہے کہ آئندہ وہ ایسی عیب دار چیز نہیں خریدے گا یا بنائے گا۔ اگر اس نے جان بوجھ کر معیوب چیز بیچی تھی تو اسے اپنے کیے کی سزا ملنی چاہئے۔
اور اگر دوکاندار خود اس چیز کا بنانے والا ہے تو اس کے لیے یہ واپسی لینے کا عمل مزید فائدہ مند ہے کہ آئندہ وہ اس چیز کو بناتے ہوئے اس عیب کا خاص خیال رکھے گا اور حل تلاش کرے گا۔ نتیجتاً اس کی مصنوعات مزید بہتر ہوں گی۔
خلاصہ یہ ہے کہ تمام دوکانداروں کو چاہیے کہ اپنی چیزیں پورے اعتماد اور وثوق کے ساتھ بیچیں۔ گاہک کو یقین دلائیں کہ اگر ایک دن کے اندر کوئی خرابی ظاہر ہوتی ہے تو ہم بخوشی واپس کر لیں گے۔ایسا کرنے سے گاہک بھی مطمئن ہو کر جاتا ہے اور روزی میں بھی برکت ہوتی ہے۔

نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326)۔

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326) دوکلرک ایک ہی دفتر میں کام کیا کرتے تھے ایک بہت زیادہ لالچی اور پیسوں کا پجاری تھا۔ غلط کام کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتاتھا۔ جہاں کہیں خیانت اور بددیانتی کا موقع ہوتا تو بڑی صفائی سے اُسکا صاف ستھرا...

read more

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔ مدرسہ استاذ اور شاگرد کے تعلق کانام ہے۔جہاں پر کوئی استاذ بیٹھ گیا اور اس کے گرد چند طلبہ جمع ہوگئے تو وہ اک مدرسہ بن گیا۔مدرسہ کا اصلی جوہر کسی شاندار عمارت یا پرکشش بلڈنگ میں نہیں، بلکہ طالبعلم اور استاد کے...

read more

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔ خانقاہی نظام میں خلافت دینا ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب نسبت بزرگ اپنے معتمد کو نسبت جاری کردیتے ہیں کہ میرے پاس جتنے بھی بزرگوں سے خلافت اور اجازت ہے وہ میں تمہیں دیتا ہوں ۔یہ ایک بہت ہی عام اور مشہور...

read more