ماتحتوں پر رحم کریں …اُنکے حقوق ادا کریں (165)۔
ہر فرد کی ایک الگ کہانی ہے، ہر شخص اپنے حالات کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ مگر کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ کیا ہم واقعی انسان ہیں؟
ایک ایسی ہی صورتحال اسکول کے ایک سیکورٹی گارڈ کی ہے، جو زیادہ تر اسکول کے خادم کا کردار ادا کرتا تھا۔یہ سیکورٹی گارڈ بظاہر تو اسکول کی حفاظت پر مامور تھا، لیکن حقیقت میں اس کی ذمہ داریاں بہت زیادہ تھیں۔ وہ حفاظت کے نام پر وہیں اسکول میں رہنے پر مجبور تھا۔ اسکول کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ پرنسپل صاحب کے ذاتی کام بھی شامل تھے۔ یہاں تک کہ وہ پرنسپل صاحب کے ذاتی جانوروں کی دیکھ بھال اور نہلائی دھلائی بھی کرتا تھا۔
یہ شخص اتنی دل و جان سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتا رہا، مگر پچھلے دو ماہ سے اسے تنخواہ نہیں ملی تھی۔اپنے گھریلو حالات سے مجبور ہوکر جب وہ اپنیپریشانی ظاہر کرنےاور تنخواہ کی درخواست کرنے پرنسپل صاحب کے پاس گیا تووہاں اسکو پرنسپل صاحب کا انتہائی بے رُخی والا جواب ملا:
ہ “میرے بیٹے کی شادی ہے اور اخراجات بہت زیادہ ہیں، اس لیے اس تیسرے مہینے کی تنخواہ بھی نہیں ملے گی۔ تم دوبارہ مانگنا بھی مت!”
یہ سن کر بے بس سیکورٹی گارڈ کے پاس آنسو بہانے کے سوا کوئی راستہ نہ رہا۔
دوستو! ایسی حالت میں ہم سب کو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک محنتی، مخلص انسان جو پوری جانفشانی سے اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے، اس کے ساتھ یہ سلوک کرنا کہاں کی انسانیت ہے؟
ایک حدیث مبارک میں مخلوق پر رحم کرنے کی تاکید کی گئی ہے، اور میں حدیث کا مطلب ہمیشہ یہی سمجھتا تھا کہ یہ رحم جانوروں کے متعلق ہے کیونکہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک انسان دوسرے انسان پر ظلم بھی کرسکتا ہے۔
مگر آج کے حالات نے یہ دکھا دیا ہے کہ انسان بھی انسانوں پر ظلم کرنے میں پیچھے نہیں ہیں۔ معاشرے کی اس پستی کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ اے انسانو! انسانوں پر رحم کرو۔
خاص طور پرہمیں اپنے ماتحتوں کے ساتھ رحمدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، ان کے حالات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور اگر کبھی ان کی مشکلات میں مدد کرنا پڑے تو ہمیں بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ بلاشبہ وہ لوگ بھی بہت قربانیاں دیتے ہیں۔
حقیقی انسانیت یہ نہیں کہ ہم صرف دوسروں سے قربانیاں لیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم خود قربانیاں دے کر دوسروں کو خوشیوں کا موقع دیں۔
آخر میں، یہ کہانی ہمیںاس چیز کا بھی احساس دلاتی ہے کہ ایک مخلص انسان کی ہمیشہ قدر کریں اور اس پر رحم و کرم کا معاملہ رکھیں۔
کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ محبت و خلوص میں آپکی باتوں پر خاموش ہوجائے ۔۔۔
مگر آپکو جواب دینا پڑے گا!
اللہ تعالیٰ ہم سب کو رحم کرنیوالا دل دے دے۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

