اکابر کے مزاج کا فرق
بروایت مولوی محمد یحییٰ صاحب سیوہاری فرمایا کہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمہ اللہ سے کسی نے مولود شریف کی بابت دریافت کیا۔۔۔۔۔ فرمایا بھائی نہ اتنا برا ہے جتنا لوگ سمجھتے ہیں اور نہ اتنا اچھا ہے جتنا لوگوں نے سمجھ رکھا ہے۔۔۔۔۔ پھر ہمارے حضرت (مولانا مرشدنا شاہ محمد اشرف علی صاحب مدظلہ) نے فرمایا کہ یہ اس قدر جامع جواب ہے کہ ایک رسالہ کا رسالہ اس کی شرح میں لکھا جاسکتا ہے لیکن یہ گول جواب ہے عوام نہیں سمجھ سکتے۔۔۔۔۔ ہر فریق اس جواب کو اپنی تائید میں پیش کر سکتا ہے۔۔۔۔۔ حضرت مولانا کھلم کھلا کسی کو برا نہیں کہتے تھے۔۔۔۔۔ ایسے سوالات کے بہت نرم جواب دیتے تھے۔۔۔۔۔ البتہ حضرت مولانا گنگوہی بالکل صاف صاف کہتے تھے ایک ہی دفعہ میں چاہے ٹھہرویا جائو۔۔۔۔۔ لگی لپٹی نہیں رکھتے تھے۔۔۔۔۔ پہلے میں بھی نرم جوابا ت کو پسند کرتا تھا لیکن اب تجربہ کے بعد مولانا گنگوہی کا طرز نافع ثابت ہوا۔۔۔۔۔ نرم جواب میں یہ مصلحت سمجھی جاتی ہے کہ مخاطب کو وحشت نہ ہو اور وہ ہم میں آ جائے حالانکہ یہ غلط ہے وہ ہم میں نہیں آتے وہ تو اپنے اسی خیال کی بناء پر ہم میں آئے ہیں تو یہ دراصل ہم میں آنا نہ ہوا ہاں ہم ہی کچھ ادھر چلے گئے وہ ہم میں نہیں آئے۔۔۔۔۔ (قصص الاکابر)
اگرآپ کو یہ واقعہ پسند آیا ہے تو اسکو شئیر ضرور کریں اور اس طرح کے دیگر اسلامی واقعات اور اولیاء اللہ کے حالات و تذکرے آپ ہمارے ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
تمام اسلامی مواد اور دیگر کیٹگریز کو دیکھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں
https://readngrow.online/readngrow-categories/
نیز ہم اس ویب سائٹ کی مفید چیزوں کو اس واٹس ایپ چینل پر بھی شئیر کرتے رہتے ہیں ۔
https://whatsapp.com/channel/0029VaviXiKHFxP7rGt5kU1H
یہ چینل فالو کرلیں ۔

