حدیث افتراقِ امت کی تشریح
بسلسلہ ملفوظات حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ
چند سائلین نے دریافت کیا کہ ۷۲ فرقہ جن کی نسبت حضور ﷺ کا ارشاد ہے : کلھم فی النار الا ملۃ واحدۃ۔ اس کے کیا معنی ہیں ؟ وجہ اشکال کی یہ تھی کہ اگر فی النار کا یہ مطلب ہے کہ ابد کے لیے (جہنمی) ہو جاویں تو کفار میں اور ان میں کیا فرق ہوا ؟ حالانکہ یہ سب فرقے اہلِ اسلام ہی کے ہیں ، پھر اہلِ سنت کے استثناء کے کیا معنی؟ جواب ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ ابد کے لیے (جہنم ) نہ جاویں گے بلکہ بعد سزا سب کی نجات ہوگی یعنی جن کو ایمان و تصدیق ِ قلبی حاصل ہے ان کو نجات ہوگی، گو ۷۲ فرقہ میں سے ہو اور تخصیص ان ۷۲ کی اس اعتبار سے ہے کہ ان کو عقائد فاسدہ پر بھی عذاب ہوگا جس میں اہلِ سنت شریک نہیں اور اعمال پر سزا ہونے میں سب شریک ہیں اور تصدیق کی قید اس لیے لگائی کہ اگر کسی مبتدع(بدعتی) کو ایسا غلو ہو جاوے کہ وہ حد ایمان ہی سے خارج ہوجاوے تو وہ اسلام ہی سے خارج ہے ، اس کی ابدیت ِ ناریت میں کوئی اشکال نہیں۔ بعض نے دریافت کیا کہ کیا رنڈیوں کو بھی نجات ہے؟ فرمایا کہ ہاں نجات ہے، کیونکہ ایمان و تصدیق ِ قلبی تو ہے گو معصیت میں مبتلا ہیں۔(بدعت کی حقیقت اور اس کے احکام و مسائل، صفحہ ۶۷)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے یہ ملفوظات بدعت کی حقیقت سے متعلق ہیں ۔ خود بھی پڑھیں اور دوستوں سے بھی شئیر کریں ۔
مزید ملفوظات پڑھنے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
اپنے پاس محفوظ کرلیں ۔
اس طرح کے ملفوظات روزانہ اس واٹس ایپ چینل پر بھی بھیجے جاتے ہیں
https://whatsapp.com/channel/0029VaJtUph4yltKCrpkkV0r
چینل جوائن کریں
