بیماری کے موسم میں دی جانے والی اذان بدعت ہے
بسلسلہ ملفوظات حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ
ایک صاحب نے سوال کیا کہ بیماری کے زمانے میں جو اذان کہی جاتی ہے اس کا کیا حکم ہے؟ارشاد فرمایا کہ بدعت ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وبا جنات کے اثر سے ہوتی ہے، اذان سے جنات بھی بھاگتے ہیں ، اس واسطے اذان میں کیا حرج ہے؟ ایک شخص کو میں نے جواب دیا کہ اذان شیاطین کو بھگانے کے لیے ہے مگر کیا وہ اذان اس کے لیے کافی نہیں جو نماز کے لیے کہی جاتی ہے۔ اگر کہا جائے کہ وہ صرف پانچ مرتبہ ہوتی ہے تو اس وقت شیاطین ہٹ جاتے ہیں مگر پھر آ جاتے ہیں تو یہ تو اس اذان میں بھی ہے کہ جتنی دیر تک کہی جائے گی ہٹ جائیں گے اور پھر آ جائیں گے،اور نماز کی اذان سے تو دن رات میں پانچ دفعہ بھی بھاگتے ہیں ، یہ تو صرف ایک دفعہ ہوتی ہے، ذرا دیر کو بھاگ جائیں گے اور اس کے بعد تمام وقت رہیں گے۔ تو شیاطین کے بھگانے کی ترکیب صرف یہ ہوسکتی ہے کہ ہر وقت اذان کہتے رہو ، پھر صرف ایک وقت کیوں کہتے ہو؟ آج کل بعض علماء کو بھی اس کے بدعت ہونے میں شبہ پڑ گیا ہے حالانکہ یقینا بدعت ہے اور اس کی کچھ بھی اصل نہیں ، یہ صرف اختراع ہے۔(بدعت کی حقیقت اور اس کے احکام و مسائل، صفحہ ۵۰)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے یہ ملفوظات بدعت کی حقیقت سے متعلق ہیں ۔ خود بھی پڑھیں اور دوستوں سے بھی شئیر کریں ۔
مزید ملفوظات پڑھنے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
اپنے پاس محفوظ کرلیں ۔
اس طرح کے ملفوظات روزانہ اس واٹس ایپ چینل پر بھی بھیجے جاتے ہیں
https://whatsapp.com/channel/0029VaJtUph4yltKCrpkkV0r
چینل جوائن کریں

