نکاح کرنے کا فقہی حکم
بسلسلہ ملفوظات حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ
واجب نکاح: جب ضرورت یعنی نفس میں تقاضہ ہو اور وسعت بھی ہو گو اس قدر ہو کہ روز کے روز کماؤں گا اور کھلاؤں گا تو نکاح کرنا اس صورت میں واجب ہے اور اس کے ترک سے گنہگار ہوگا۔
فرض نکاح: اگر وسعت کے ساتھ بہت زیادہ تقاضہ ہے کہ بغیر نکاح کئے ہوئے حرام فعل میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہے تو نکاح کرنا فرض ہوگا۔ ومن الفعل الحرام النظر المحرم والاستمناء بالکف(ترجمہ: حرام فعل میں حرام نظر اور جلق بازی مشت بازی یعنی اپنے ہاتھ کے ذریعہ مادہ کو خارج کرکے خواہش کو پوری کرنا یہ بھی شامل ہے)۔
مسنون نکاح: اور اگر ضرورت کا درجہ نہیں لیکن زوجہ کے حق کی ادائیگی کی قدرت ہے تب نکاح کرنا سنت ہے۔
ممنوع صورت: البتہ اگر اندیشہ ہے کہ بیوی کا حق ادا نہ کر سکے گا خواہ حق نفس ہو، خواہ حق مال تو ایسے شخص کے لیے نکاح کر لینا یقینا ممنوع ہے۔
مختلف فیہ صورت: اور اگر ضرورت ہو اور وسعت نہ ہو تو اس میں اقوال مختلف ہیں۔ احقر وجوب کے قول کو راجح سمجھتا ہے اور وسعت کا تدارک محنت مزدوری یا قرض سے کرلے جس کی ادائیگی کی پکی نیت رکھے اور ادا کی کوشش بھی کرے اور اگر اس پر بھی ادا نہ ہو سکا تو امید ہے کہ حق تعالیٰ اس کے قرض خواہ کو راضی فرما دیں گے کیونکہ اس نے دین کی حفاظت کے لیے نکاح کیا تھا ، اس میں مقروض ہوگیا تھا مگر فضولیات کے لیے یہ قرض جائز نہیں بلکہ صرف نان و نفقہ کے لیے یا مہر کے لیے جہاں مہر فوراً لیا جاتا ہے ۔(صفحہ ۶۷،اسلامی شادی)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے یہ ملفوظات نکاح یعنی اسلامی شادی سے متعلق ہیں ۔ ۔ خود بھی پڑھیں اور دوستوں سے بھی شئیر کریں ۔
مزید ملفوظات پڑھنے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
اپنے پاس محفوظ کرلیں ۔
اس طرح کے ملفوظات روزانہ اس واٹس ایپ چینل پر بھی بھیجے جاتے ہیں
https://whatsapp.com/channel/0029VaJtUph4yltKCrpkkV0r
چینل جوائن کریں