امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے اہم اصول (97)۔
امر بالمعروف ونہی عن المنکر ایک بہت ہی اہم شرعی امر ہے ۔ لیکن دیگر تمام شرعی امور کی طرح اس میں بھی بہت سارے حدود و قیود اور ادب و آداب ہیں ۔ بعض لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمیں ایک اچھی بات معلوم ہوگئی تو ہم اسکی تبلیغ و ترویج کرنے کے اہل ہوگئے۔ اب ہمارے سامنے کوئی یہ غلط کام کردکھائے تو ہم اُسکو اچھی طرح روکیں گے ۔
حالانکہ تعلیم و تبلیغ کے لئے انسان کا بااثر ہونا، نرم گفتار ہونا، زبان کا پاکیزہ ہونا بے حد ضروری ہے ۔
یہ تینوں چیزیں اگر مفقود ہوئیں یعنی ایک انسان جو بااثر اور باعمل نہیں ہے وہ اگر ایسی حدیث کی تبلیغ کرے گا جس پر وہ خود عمل نہیں کررہا تو اسکی بات نہیں سنی جائیگی ۔ اسی طرح دوسری چیز اگر نرم گوئی مفقود ہوئی اور انتہائی غصے میں نصیحت کی گئی تو ایسے شخص کی نیت خواہ جتنی بھی صاف ہو، غلط اثر ہی پڑے گا ۔ اور تیسری چیز زبان کا پاکیزہ ہونا ہے یعنی طعن و تشنیع سے پاک ہو ۔ اگر انتہائی نرم لہجے میں طعنے مار کر دوسرے کی اصلاح کررہا ہے یا اُسکو کوئی حدیث اس طور پر سمجھا رہا ہے کہ طعنہ بھی ماررہا ہے اور پھر حدیث بھی موقع محل کے مطابق سنا رہا ہے تو ایسے شخص کی نصیحت بھی بے اثر ہوجائیگی ۔
ایک سب سے اہم بات نصیحت کرنے میں یہ ہوتی ہے کہ وہ شخص جس کو آپ نصیحت کررہے ہیں وہ سننے کی اہلیت بھی رکھتا ہو ۔ اگر وہ جذبات میں ہے یا کسی وقتی حال سے مغلوب ہے تو خبرداردوستو! ایسے شخص کوفی الحال کوئی نصیحت نہ کریں ۔ بلکہ ایسے جذباتی آدمی کو کوئی حدیث بھی نہ سنائیں ۔ بالفرض کوئی قرآنی آیت آپ نے سنا دی اور اُس نے اپنی وقتی حالت کے پیش نظر جذبات میں انکار کردیا تو یقیناً اسکا وبال آپ پر بھی پڑے گا ۔
مثلاً ایک شخص ملازمت کے وقت میں فرض نماز کے لئے جب چھٹی لے کر جاتا تو بہت دیر لگا دیتا اور نماز کے علاوہ بھی وہ مسجد کے ائیر کنڈیشنر میں بیٹھا رہتا۔ جب کافی دن تک اُس نے یہ روش نہ چھوڑی توباس نے اُسکو بلایا اور اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ اذان ہوتے ہی تم فوراً چلے جاتے ہو اور کافی وقت مسجد میں گزارتے ہو تو اس دوران کام کا نقصان ہوتا ہے ۔ تو باس کے غصہ والے جذبات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس بندے نے فوراً حدیث سنا دی کہ جسکا مفہوم کچھ ایسا تھا کہ جب نماز کا وقت ہو تو فوراً پہنچو ۔
اب خدانخواستہ جواباً باس نے کچھ ایسی بات کردی جس سے حدیث کا انکار ہو یااسکا شبہ پیدا ہو تو باس پر گناہ کم اور اس بندے پر زیادہ ہوگا ۔
خوب یاد رکھیں ! وعظ و نصیحت یا امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی تمام احادیث کو اگر بغور پڑھ کر جمع کر لیا جائے توپھر بھییہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ مسلمانوں میں سے ہرہر فرد ہر وقت ہر شخص کو نصیحت کرنا شروع کردے ۔ بلکہ اسکے تقاضوں کو سیکھنا، سمجھنا اور بروئے کار لانا بے حد ضروری ہے ۔
ورنہ اسکے فائدہ کی بجائے نقصانات سامنے آنے لگتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو شریعت کا پابند بنادے اور دین اسلام کا صحیح فہم نصیب فرما دے ۔ آمین ۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

