عہدے کا غلط استعمال ظلم ہے (92)۔

عہدے کا غلط استعمال ظلم ہے (92)۔

مسجد کے امام صاحب ایک شاندار گاڑی سے اُترے اور گاڑی کو مسجد کے متصل ایک مکان کے سامنے پارک کر دیا۔
۔کچھ ہی دیر میں مکان مالک نکلے اور احترام سے کہنے لگے: “حضرت، میرے گھر کے آگے گاڑی کھڑی نہ کریں، مجھے تنگی ہوتی ہے۔”۔
امام صاحب کے چہرے پر غصے کی لہر دوڑ گئی۔
دل میں خیال آیا کہ “میں صرف دس منٹ کے لیے گاڑی یہاں کھڑی کر رہا ہوں، آخر میں اس علاقے کی مسجد کا امام ہوں، مجھے تو کچھ رعایت ملنی چاہیے۔”یہ غصہ دراصل اس مرض کی علامت تھا جو اکثر بڑے عہدے رکھنے والوں میں پایا جاتا ہے۔
وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس عہدے کے باعث انہیں خاص مراعات ملنی چاہئیں، چاہے وہ اصولوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔
یہ بھی عجیب بات ہے کہ اگر کوئی پولیس افسر، وکیل، جج یا کوئی سرکاری ملازم ہے تو وہ اپنے عہدے کے زور پر قانون سے بالاتر ہو جاتا ہے۔ یہ درحقیقت عہدے کا غلط استعمال اور ظلم کی ایک شکل ہے۔
اسی طرح کی مثال کچہری کے باہر دیکھنے کو ملتی ہے جہاں وکلاء اپنی گاڑیاں بے جا سڑک پر پارک کرتے ہیں، اور ٹریفک وارڈن بھی بے بس نظر آتے ہیں۔ ایک دن میں نے وارڈن سے پوچھا:۔
آپ کے ہوتے ہوئے یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟
وہ بولا:”ہم نے بہت کوشش کی، مگر جب گاڑیاں اُٹھائیں تو ہمیں دھمکیاں ملنے لگیں کہ احتجاج ہوگا اور چوک بند کر دیا جائے گا۔ اس لیے ہم خاموشی سے دیکھتے ہیں اور ٹریفک کو اسی کے مطابق چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔”۔
یہ پورا منظر اس بات کا سبق دیتا ہے کہ جب عہدے کا غلط استعمال ہونے لگے تو نہ صرف قانون کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہیں بلکہ معاشرہ بھی بگاڑ کی راہ پر چل نکلتا ہے۔ قانون، جو کہ سب کے لیے برابر ہونا چاہیے، ایک مخصوص طبقے کے ہاتھوں بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔اب ذرا سوچئے!۔
اگر ہر عہدیدار اور مؤثر شخصیت قانون کا احترام کرے تو معاشرے کا کیا حال ہوگا؟ اسی سلسلے میں ایک نہایت سبق آموز واقعہ مفتی تقی عثمانی صاحب کا ہے۔ ایک دن انہوں نے معمولی سی ٹریفک خلاف ورزی کی تو ایک ٹریفک پولیس والے نے ان کا چالان کاٹ دیا۔ بعد میں جب اسے علم ہوا کہ یہ تو مفتی تقی عثمانی ہیں، تو اس نے معذرت کی۔ لیکن مفتی صاحب نے نہایت عاجزی سے کہا:۔
“اگر میں نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے، تو چالان ضرور ہونا چاہیے۔”یہی وہ رویہ ہے جو معاشرے کو نئی زندگی بخشتا ہے اور مثال بنتا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، چاہے کوئی کتنا ہی بڑا عہدے دار کیوں نہ ہو۔
تو دوستو! اگر آپ کسی بھی عہدہ پر ہیں توایک اچھی مثال بنیں۔ قانون کا احترام کریں۔ عام انسانی اصولوں کی پیروی کریں اور معاشرہ میں کسی کے لئے بھی تکلیف کا باعث نہ بنیں۔

نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326)۔

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326) دوکلرک ایک ہی دفتر میں کام کیا کرتے تھے ایک بہت زیادہ لالچی اور پیسوں کا پجاری تھا۔ غلط کام کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتاتھا۔ جہاں کہیں خیانت اور بددیانتی کا موقع ہوتا تو بڑی صفائی سے اُسکا صاف ستھرا...

read more

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔ مدرسہ استاذ اور شاگرد کے تعلق کانام ہے۔جہاں پر کوئی استاذ بیٹھ گیا اور اس کے گرد چند طلبہ جمع ہوگئے تو وہ اک مدرسہ بن گیا۔مدرسہ کا اصلی جوہر کسی شاندار عمارت یا پرکشش بلڈنگ میں نہیں، بلکہ طالبعلم اور استاد کے...

read more

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔ خانقاہی نظام میں خلافت دینا ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب نسبت بزرگ اپنے معتمد کو نسبت جاری کردیتے ہیں کہ میرے پاس جتنے بھی بزرگوں سے خلافت اور اجازت ہے وہ میں تمہیں دیتا ہوں ۔یہ ایک بہت ہی عام اور مشہور...

read more