مسجد کا امام ۔۔۔ آپکا لیڈر ہوتا ہے (67)۔

مسجد کا امام ۔۔۔ آپکا لیڈر ہوتا ہے (67)۔

مسجد میں حاضر ہوکر نماز پڑھنے والے جتنے بھی نمازی ہیں یقیناً وہ امام کے پیچھے نیت باندھ کر باجماعت نماز پڑھنے کے لئے آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے امامت کا ایسا منصب بنایا ہے کہ ایک امام نماز پڑھاتا ہے اور باقی سب کی نماز اسکے تابع ہوتی ہے ۔
اسی میں لامحالہ یہ سمجھ لیجئے کہ اگر امام کی نماز میں خشوع ہوگا تو پیچھے کھڑے نمازی بھی پوری توجہ کے ساتھ نماز پڑھیں گے۔ لیکن اگر امام کی نماز میں خشوع نہ ہوا اور کوئی ترتیب وتعدیل نہ ہوئی تو سب کی نماز خراب ہوگی۔ کوئی نمازی چاہتے ہوئے بھی دھیان اور توجہ نہیں قائم رکھ سکے گا۔
یہاں پر یہ بات یاد رکھیں کہ امام کے خشوع وخضوع کا تعلق اُسکے نمازیوںکی محبت سے ہوتا ہے۔ اگر امام صاحب کو آپ لوگ عزت دیں گے اوراُنکو وہ مقام دیں گے جو ایک مجمع کے لیڈر کا ہونا چاہئے تبھی وہ دلجمعی کے ساتھ نماز پڑھا سکیںگے۔
مساجد میں اکثر لوگ امام کی اپوزیشن پارٹی بنا لیتےہیں۔ جس کی وجہ سے امام صاحب ایک مستقل آزمائش اور خوف کی حالت میں نماز پڑھاتے ہیں۔ امام صاحب کو اتنے لوگ مشورہ دے چکے ہوتےہیں کہ وہ شدید تذبذب کا شکار ہوتےہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے مسجد کےا مام صاحب کو ایک نمازی نے کہا کہ میں ایک تاجر ہوں اور دوکان پر کوئی بھی نہیں ہوتا۔ آپ مہربانی فرماکر نماز جلدی پڑھا دیا کریں ویسے بھی یہاں تاجر برادری ہے تو سب کا یہی مطالبہ ہوگا۔ امام صاحب نے اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُنکی بات کو عزت دی اور نمازمیں اختصار کا معمول بنا لیا۔ چند دن بعد ایک بزرگوار (ادھیڑ عمر کےتھے) کہنے لگے کہ امام صاحب! مجھے نماز پڑھنے میں بڑی دقت ہوتی ہے۔ ابھی میں رکوع میں جانے ہی لگتا ہوں کہ آپکا رکوع ختم ہوجاتا ہے۔ پھر باقی ارکان بھی آپ جلدی جلدی پڑھاتے ہیں۔ حالانکہ ہمیں تو کوئی جلدی نہیں ہوتی۔ کہنے لگے کہ میں تو نماز کے بعد بھی پندرہ بیس منٹ بیٹھا رہتا ہوں ۔ تسلی سے سنتیں وغیرہ پڑھتا ہوں۔ آپ مہربانی فرما کر نماز آہستہ اور پورے اطمینان سے پڑھایا کریں۔
تو دوستو! اس طرح کی سینکڑوں مثالیں میرے پاس موجود ہیں۔ کچھ لوگ کہتےہیں کہ فاتحہ ایک سانس میں پڑھ دیا کریں کیونکہ یہ تو ہر نماز میں سنتے ہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ فاتحہ پڑھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ ہر آیت پر سانس توڑو۔
تو میری گزارش اس مضمون میں یہ ہے کہ امام صاحب کو مخمصہ میں نہ ڈالیں ورنہ آپکی اپنی نمازیں  خراب ہوںگی۔ امام صاحب کو عزت دیں۔ اُنکو کسی بھی چیز پر مجبور نہ کریں۔ یادرکھیں!امام کوئی فرشتہ نہیں ہوتا بلکہ انسان ہی ہوتا ہے اس لئے چھوٹی موٹی غلطیوں کو نظر انداز کریں۔ حد سے زیادہ پریشر نہ ڈالیں۔ اپنی بات کو ضد بنا کر نہ تھوپیں اور امام صاحب کو اپنا غلام سمجھ کر بات نہ کریں۔ بلکہ وہ آپکی مسجد، محلہ اور علاقہ کے نمائندہ ہیں یعنی لیڈر ہیں ۔ جو لوگ کسی کو لیڈر مقرر کریں اور پھر اُسکی عزت نہ کریں تو ایسے جاہل لوگ خود کو خراب کرنے کے لئے خود ہی کافی ہوتے ہیں ۔

نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326)۔

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326) دوکلرک ایک ہی دفتر میں کام کیا کرتے تھے ایک بہت زیادہ لالچی اور پیسوں کا پجاری تھا۔ غلط کام کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتاتھا۔ جہاں کہیں خیانت اور بددیانتی کا موقع ہوتا تو بڑی صفائی سے اُسکا صاف ستھرا...

read more

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔ مدرسہ استاذ اور شاگرد کے تعلق کانام ہے۔جہاں پر کوئی استاذ بیٹھ گیا اور اس کے گرد چند طلبہ جمع ہوگئے تو وہ اک مدرسہ بن گیا۔مدرسہ کا اصلی جوہر کسی شاندار عمارت یا پرکشش بلڈنگ میں نہیں، بلکہ طالبعلم اور استاد کے...

read more

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔ خانقاہی نظام میں خلافت دینا ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب نسبت بزرگ اپنے معتمد کو نسبت جاری کردیتے ہیں کہ میرے پاس جتنے بھی بزرگوں سے خلافت اور اجازت ہے وہ میں تمہیں دیتا ہوں ۔یہ ایک بہت ہی عام اور مشہور...

read more