عدالتی فیصلوں سے خوشی نہیں ملتی (58)۔
عدالتی فیصلے کبھی بھی خوشی نہیں دیتے۔ قانونی پیچیدگیاں انسان کو الجھا دیتی ہیں۔ خاص طور پر خاندانی اور گھریلو معاملات کبھی بھی عدالتوںکے حوالے نہ کریں۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کی عدالتوں میں انصاف نہیں بلکہ انصاف تو مل جاتا ہے مگر کچھ پہلو جو غور طلب ہیں وہ بھی یاد رکھیں:۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ جب گھریلو معاملہ عدالت کی طرف جاتا ہے تو پورے خاندان اور محلہ میں بات پھیل جاتی ہے۔ پھر خاوند اور بیوی دونوں کو سب باتیں ظاہر ی یا پوشیدہ سب کی سب وکیل کو بتانی پڑتی ہیں ۔ پھردونوں وکیل جج کو بتاتے ہیں یعنی پوری عوام کے سامنے اک تماشہ بن جاتا ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ عدالتوں میں اکثر ذہنی کوفت بھی ہوتی ہے۔ ایک تو انسان کو اپنے معاملات کی خرابی کی پریشانی اور پھر عدالت کی تاریخوں اور ٹائم ٹیبل کی وجہ سے خرابیاں مزید بڑھ جاتی ہیں ۔
تیسری بات یہ ہے کہ عدالتی نظام بہت حد تک اب پیسوں کا اجاڑا بن چکا ہے۔چھوٹے سے کیس کے لئے بھی کئی جگہوں پر پیسہ ادا کرناپڑتا ہے ۔
4) عدالت میں معاملہ پہنچنے کے بعد مقابلہ کی صورت بن جاتی ہے۔ پھر میاں بیوی دونوں ایک دوسرے سے جیتنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے یہ صورتحال بن جاتی ہے کہ ٹھیک ٹھاک فیصلہ ہونے کے بعد بھی دونوں کو پریشانی رہتی ہے۔ خاوند سمجھتا ہے کہ بیوی جیت گئی اور بیوی سمجھتی ہے کہ خاوند جیت گیا ۔
پانچویں بات یہ ہے کہ اسی ہار جیت کے چکر میں اکثر لوگ جھوٹ بولنا بھی شروع کردیتے ہیں۔ کیونکہ شروعات میں تو انصاف لینے گئے تھے پھر جیت کے لالچ میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ عدالتوں میں اگرچہ بالآخر فیصلے ہوجاتے ہیں مگر یہ سائیڈ ایفیکٹس ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے بہتر صورت یہ معلوم ہوتی ہے کہ اپنے گھریلو مسئلے گھر میں ہی حل کریں۔ بڑے بزرگوں کا احترام کریں۔ اور فریقین اُنکی باتوں کو مان لیں۔ زیادہ لڑائی جھگڑے اور فسادات سے آج تک کوئی بھی خوشی حاصل نہیں کرسکا۔
اگر معاملہ زیادہ طول پکڑ جائے تو پھر دونوں فریقین مکمل معاملہ لکھ کر قریبی مدرسہ کے دارالافتاء سے رہنمائی لے لیں۔ اسکا طریقہ یہ ہے کہ خاوند اپنی ساری صورتحال لکھ لے اور بیوی اپنی مکمل صورتحال لکھ لے ۔ پھر یہ دونوں ایک ساتھ ہی کسی دارالافتاء میں بھیج دیں۔ جو بھی جواب آئے اُس پر اللہ کا نام لے کر عمل شروع کردیں۔
کچھ لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ دارالافتاء میں الگ الگ مسئلہ لکھ کر بھیجتے ہیں یعنی بیوی علیحدہ خط لکھتی ہے اور خاوند علیحدہ۔ جس کی وجہ سے دو جواب موصول ہوتے ہیں اور دونوں میں جواب مختلف ہوتا ہے۔ نتیجتاً جھگڑا حل نہیں ہوتا ۔ اس لئے دونوں میاں بیوی الگ الگ صفحے پر لکھ کر ایک ہی خط میں بھیجیں تاکہ تشفی بخش جواب مل جائے ۔
اللہ تعالیٰ سب گھروں کو ہنستا بستا
اور شاد و آباد رکھے ۔ ۔۔۔ آمین
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

