شاگردوں ….اسٹوڈنٹس پر ظلم نہ کریں (54)۔
استاذ اور شاگرد کا رشتہ بہت ہی حساس ہے کیونکہ استاذ ایک ایسی شخصیت ہے جوکسی بھی عام انسان کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا سکتا ہے ۔ بشرطیکہ شاگرد اپنے استاذ پر بھروسہ رکھے، اسکی اطاعت کرے اور خدمت کرکے استاذ کا دل خوش کرے۔
مگر یہ جو خدمت شاگرد کے ذمہ ہے اسمیں کچھ حدود کی پابندی استاذ کے لئے بھی لازمہے۔ مثلاً اساتذہ کو یہ بات سمجھ لینیچاہئے کہ شاگرد کے ذمہ تو لازم ہے کہ وہ اپنے استاذ کی خدمت کرے مگر استاذ کے ذمہ یہ لازم نہیں کہ وہ زبردستی اپنے شاگرد سے خدمت لیتا پھرے۔
بعض استاذ یہ سمجھتے ہیں کہ شاگرد کے ذمہ تو فرض ہے کہ وہ ہمارے سارے گھر کے کام، دن بھر کے کام اور بلکہ خاندان کے بھی کام سرانجام دے۔ جو کہ سراسر غلط ہے۔ یاد رکھیں کہ اس میں شاگرد کی کامیابی تو یقینی ہے مگر استاذ کے لئے آخرت میں جواب دینا لازم ہوگا۔ اگر اُس نے بلاوجہ اور بلا ضرورت شدیدہ شاگرد کو اپنا غلام بنا کررکھا تو گویا اُس نے نہ صرف اس مقدس رشتہ کے آداب کو پامال کردیا بلکہ اپنی آخرت بھی خراب کردی۔
ایک قاری صاحب کے بارہ میں آج ہی معلوم ہوا کہ وہ کہیں پر جار ہے تھے کہ اچانک پولیس والوں نے روک لیا۔ قریب ہی تھانہ موجود تھا جہاں پر قاری صاحب کو لے جایا گیااور لائسنس کا پوچھا۔ تو معلوم ہوا کہ لائسنس گم ہوگیاہے۔ پولیس والے یہ کہہ کر چلے گئے کہ آپ نچلی منزل پر جاکر درخواست پیش کریں کہ میرا لائسنس گم ہوگیا ہے اور پھر اس درخواست کو جمع کرواکر اُسکا عکس ہمیں دے دیں۔ قاری صاحب بہت غصے میں تھے ۔ اُنہوں نے نچلی منزل پر اترنا گوارا نہ کیا بلکہ اپنے شاگرد کو فون کیا کہ جلدی یہاں پہنچو۔ وہ بیچارہ جس حال میں بھی تھا فوراً استاذ کے کہنے پر تھانے میں پہنچ گیا۔ استاذ کی عزت رکھنے کے لئے وہ تھانے میں سب کی منت اور ترلے کرتا رہا اور پتہ نہیں کیا کچھ معاملات آگے چلتے رہے۔ بہرصورت اس طرح کے کئی واقعات دیکھنے میں آئے ہیں کہ استاذ اپنے شاگردوں سے خوب کام لیتے ہیں اورذاتی ذمہ داریوں میںبھی بلاضرورت معاونت لیتے رہتے ہیں۔ بالخصوص ایسے پروفیسر حضرات جو پی ایچ ڈی کے لئے مقالہ لکھواتے ہیں تو اُسوقت اسٹوڈنٹ کی زندگی کا فیصلہ پروفیسر کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو وہ خوب مظالم ڈھاتے ہیں۔ جس کا ایک دن ضرور جواب دینا پڑےگا۔ کیونکہ اسٹوڈنٹ تو مجبوراً ٹیچر کا ہر حکم مان لیتے ہیں مگر اساتذہ کو چاہئے کہ وہ اپنا وقار اور اس پیشہ کی عزت کو مدنظر رکھ کر احتیاط کا پہلو تھامے رکھیں۔ حال ہی میں ایک دوست جو مقالہ لکھ رہے ہیں اُنہوں نے اپنے پروفیسر کے حالات بتائے کہ اُس کے مظالم کی وجہ سے خود کشی کرنے کو دل چاہتا ہے کیونکہ اگر پڑھائی چھوڑ دیں تو ماضی کی تمام جدوجہد بیگار جائے گی۔ اور اگر نہ چھوڑیں تو اُس استاذ کی کوئی سمجھ نہیں آرہی۔
تو ایسے مواقع پر اساتذہ کو خوب دھیان کرنا چاہئے ۔ ناجائز ظلم ڈھا کر اپنے پیشے کو بدنام نہ کریں ۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

