ادب اور تواضع کے بغیر…. کامیابی ممکن نہیں (13)۔
مولانا شاہ وصی اللہ الٰہ آبادی رحمہ اللہ تعالیٰ نے (مجموعہ تالیفات مصلح الامت میں) فرمایا:۔
۔” ادب اور تواضع ایسی چیزیں ہیں کہ طریق میں جس کو جو کچھ ملا ہے اِسی سے ملا ہے اور جس نے اپنے بڑوں کا جتنا ادب کیا ہے اُتنا ہی بڑا وہ شخص ہوا ہے “۔۔
یہ قول اگرچہ راہ سلوک اور تصوف کے سالکین کے لئے ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اصول دنیا کے ہر شعبہ میں کارفرماہوتا ہے۔ کوئی بیٹا اپنے والد کو راضی نہیں کرسکتا جب تک وہ ادب اور تواضع کا پیکر نہ بن جائے۔ کوئی شاگرد اپنے استاذ سے صحیح معنوںمیں تب تک علم حاصل نہیں کرسکتے جب تک وہ سچے دل سے اپنے استاذ کا ادب نہ کرلے۔ اسی طرح دنیا کے ہر شعبے میں اور ہر منزل پر جب تک لوگ اپنے سے بڑوں کا ادب نہیں کرتے اور خود کو تواضع میں جھکانہیں دیتے تب تک اِنکو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
میرے ذاتی مشاہدہ میں جو چند واقعات ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک طالب علم اتنا کندذھن تھا کہ استاذ کی بات کو نہیں سمجھتا تھا بلکہ پھر رات کو تکرار اور مطالعہ کے دوران پوری درسگاہ کے طالب علم اپنے اپنے انداز میں اُسکو سمجھانے کی کوشش کرتے مگر وہ بیچارہ بہت ہی کم عقل تھااور کافی محنت کے بعد بھی وہ رونی سی صورت بنا کر کہتا کہ یہ مسئلہ مجھے نہیں سمجھ آرہا۔ البتہ اس طالب علم پر استاذ خوش تھے کیونکہ اُنکے سب کام مثلاً سودا سلف لانا، سر میں تیل لگانا اور چھوٹے موٹے کام وغیرہ خوشی خوشی کرتاتھا۔ پھر یوں ہوا کہ فراغت کے بعد ایک استاذ مفتی صاحب نے اسکو اپنے پاس بٹھا لیا اور میراث کے مسائل میں جمع نفی اسکو ذمہ لگا دیتے۔ خدا کی قدرت دیکھئے کہ میراث کے مسائل اسکی سمجھ میں بیٹھ گئے۔ مسلسل مشق کرتے کرتے یہ مسائل اس پر کھل گئےاور علم میراث کا یہ ماہر بن گیا۔ آج بھی جب ملتا ہے تو اُسی طرح مرجھایا ہوا اور معصومانہ باتیں کرتا ہےمگر میراث کے مسائل میں سے کچھ بھی پوچھ لو تو ایسے جواب دے گا کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔ اس طرح کی بیسیوںمثالیں موجود ہیں۔
مگراسکے برعکس جو لوگ تواضع کو احساس کمتری اور بے ادبی کو خود اعتمادی کا نام دیتے ہیں وہ اعلیٰ ترین نمبر لے کراور ڈگریاں ہاتھ میں لے کر بھی ذلیل و خوار ہوتے نظر آتے ہیں۔
بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ اُنہوں نے انجینئرنگ کی اور ایسے ایسے قصے سنایا کرتے تھے کہ فلاں استاذ کا میں نے ایسے مذاق اڑایا تھا اور فلاں استاذ کو میں نے ایسے پاگل بنایا تھا نعوذ باللہ ۔ تو ان لوگوں کا انجام ہمیشہ عبرتناک ہی دیکھا ہے ۔ پانی کے بلبلے کی طرح یہ لوگ اونچی اونچی عمارات اور بڑے بڑے کاروبار قائم کرلیتے ہیں مگر بلبلہ جتنا بھی اوپر پہنچ جائے یکدم سے ایسے غائب ہوتا ہے جیسے کچھ تھا ہی نہیں ۔
تو دوستو ! اپنے سے بڑے حضرات کا ادب کرنا سیکھیں بالخصوص استاذ، والد اور شیخ ۔ جس نے ان کی بے ادبی کی وہ دنیا میں ہی اپنی بے مرادی دیکھ کر مرے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے ۔ آمین ۔
بشکریہ ڈاکٹر فیصل صاحب ازواٹس ایپ گروپ
۔(علوم و معارف اکابر۔ ملفوظ نمبر 1189)۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online/
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M