کعبہ کی روح اور حقیقت
ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ کو معلوم ہے کہ ان کی یعنی حق تعالیٰ کی (تمام جگہوں اور اطراف میں) کس طرف توجہ زیادہ ہے، جس طرف ان کی توجہ زیادہ تھی اس کو نماز کی جہت مقرر فرمادیا، رہا یہ کہ یہ کیسے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کی توجہ کعبہ کی طرف زیادہ ہے سو اوّل تو حق تعالیٰ کا حکم دینا کہ مسجد حرام یعنی کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھو اس کی واضح دلیل ہے ورنہ جن کی آنکھیں ہیں وہ جانتے ہیں کہ واقعی کعبہ پر تجلیاتِ الٰہیہ بہت زیادہ ہیں اور توجہ سے یہی مراد اور مقصود ہے اور وہی تجلیات کعبہ کی روح اور کعبہ کی حقیقت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کعبہ کی چھت پر بھی نماز ہوجاتی ہے کیونکہ اس وقت گو کعبہ کی صورت سامنے نہیں مگر کعبہ کی حقیقت یعنی تجلی الٰہی تو سامنے ہے ، کعبہ تجلیاتِ الٰہی کا مرکز ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان دراصل تجلی الٰہی کا استقبال کرتے ہیں ، کعبہ کی دیواروں کا استقبال نہیں کرتے مگر چونکہ تجلی الٰہی کا احساس ہر شخص کو نہیں ہوتا ، اس لئے حق تعالیٰ نے اس خاص بقعہ (خطہ اور جگہ) کی حد مقرر فرمادی جس پر ان کی تجلی دوسرے مکانوں سے زیادہ ہے ۔ پس یہ عمارت محض اس تجلی اعظم کی جگہ دریافت کرنے کے لئے ہے، ورنہ خود عمارت مقصود بالذات نہیں ، چنانچہ کعبہ کی عمارت منہدم ہوجانے کے بعد نماز کا موقوف نہ ہونا اور کعبہ کی چھت پر نماز کا درست ہونا اس کی دلیل ہے۔ (امدادالحجاج ،صفحہ ۲۳۳)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے یہ ملفوظات جو حج سے متعلق ہیں ۔ خود بھی پڑھیں اور دوستوں سے بھی شئیر کریں ۔
مزید ملفوظات پڑھنے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
اپنے پاس محفوظ کرلیں ۔
اس طرح کے ملفوظات روزانہ اس واٹس ایپ چینل پر بھی بھیجے جاتے ہیں
https://whatsapp.com/channel/0029VaJtUph4yltKCrpkkV0r
چینل جوائن کریں

