جھوٹی گواہی
اذکرو محاسن موتاکم
اس حدیث کا غلط مفہوم لوگوں کے ذہن میں بیٹھ گیا ہے۔ دانستہ و نادانستہ مرنے والوں کے بارے میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ جو میت کو بالکل نہ جانتا ہو وہ بھی اس کے بارے میں تعریفی کلمات کہہ دیتا ہے۔ اس جھوٹ اور غلط بیانی کو سننے والے بھی مصلحت کی وجہ سے برداشت کر جاتے ہیں ۔کتنا نورانی چہرہ ہے، بالکل مسکراتا ہوا، بہت پرسکون، مرحوم بہت اچھے تھے، پابند ِ شریعت تھے، کبھی کسی کا دل نہیں دُکھایا، سب سے بڑے اخلاق سے ملتے تھے جیسے کلمات بے دھڑک کہہ دیتے ہیں۔ اس میں بعض مرتبہ لواحقین کو تسلی دینا مقصود ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود جھوٹ بولنا جائز نہیں۔اور کبھی چاپلوسی اور بعض مرتبہ میت کے ساتھ اپنا تعلق ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے جو ریاکاری کے سبب بہت مضر ہے۔ بس سیدھی اور حق بات کہنی چاہئے۔ کوئی مثبت بات معلوم نہ ہو تو خاموش رہنا چاہئے۔ خواہ مخواہ باتیں بنانا بڑا عیب ہے۔
(مؤرخہ ۲۰ مارچ۲۰۱۹ء درسِ صحیح بخاری،بمقام دارالحدیث،، اسلامک دعوۃ اکیڈمی، لیسٹر، برطانیہ)
ازافادات محبوب العلماء حضرت مولانا سلیم دھورات مدظلہ العالی (خلیفہ مجاز مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ تعالیٰ)۔
نوٹ: اس طرح کے دیگر قیمتی ملفوظات جو اکابر اولیاء اللہ کے فرمودہ قیمتی جواہرات ہیں ۔ آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online/
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔ براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ ودیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔
اور ایسے قیمتی ملفوظات ہمارے واٹس ایپ چینل پر بھی مستقل شئیر کئے جاتے ہیں ۔ چینل کو فالو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں
https://whatsapp.com/channel/0029VaJtUph4yltKCrpkkV0r
شکریہ ۔

