حرصِ دنیا کا علاج
ملفوظاتِ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
ایک طالب نے لکھا کہ احقر جب بھی کوئی اچھی چیز کسی کے پاس دیکھتا ہے تو یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ میرے پاس ہو تو بہت اچھا ہو۔ پھر کوشش کرتا ہوں کہ وہ چیز مجھے کسی طرح سے حاصل ہوجائے ۔ اس شخص سے زائل کرنے کو دل نہیں چاہتا بلکہ صرف اپنے پاس رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ اس سے
معلوم ہوتا ہے کہ مجھ میں حرصِ دنیا ہے۔ اگر میرا یہ خیال صحیح ہو تو علاج ارشاد فر مایا جائے۔
اس کا جواب ارقام فرمایا کہ مرض تو نہیں مگر مفضی الی المرض ہونے کا احتمال ہے۔ علاج اس کا یہ ہے کہ بمجرد اس تمنا کے یہ عزم کیا جاوے کہ اگر یہ چیز مجھ کو مل بھی گئی تو فوراً کسی کو ہبہ کردوں گا۔ خصوص اس شخص کو جس کے پاس ایسی چیز پہلے سے موجود ہے یا اگر اس سے ایسی بے تکلفی نہ ہوئی تو کسی دوسرے کو دے دوں گا اور اگر وہ چیز اتفاق سے اپنی ضرورت کی ہوئی تو اس کے دام مساکین کو دے دوں گا۔ جب تک ایسی تمنا زائل نہ ہوگی اس وقت تک ایسا ہی کیا کروں گا۔
(مأثرِحکیم الامت ، صفحہ ۲۵۱)
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ عبدالمتین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد زبیر صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

