دعوت وتبلیغ کی طرف سے اہلِ علم کی کوتاہی اور اس کا نتیجہ
ملفوظاتِ حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
ارشاد فرمایا کہ ہم لوگ جو پڑھے لکھے کہلاتے ہیں بس طالب علموں کے پڑھانے کو بڑی معراج سمجھتے ہیں مگر جو اصلی غایت ( مقصد ) اور تعلیم و تعلم کی صحیح غرض ہے اور جو انبیاء علیہم السلام کا خاص کام ہے یعنی تبلیغ و اشاعت جو بذریعہ وعظ ہوتی ہے اس کا کہیں پتہ بھی نہیں بلکہ جو اساتذہ علامہ کہلاتے ہیں وہ اسے موجبِ تذلیل اور باعثِ عار سمجھتے ہیں اور اس زعمِ باطل میں مبتلا ہیں کہ وعظ کہنا جاہلوں کا کام ہے۔ بس جی! تم نے جاہلوں کا کام سمجھ کر اسے چھوڑ دیا تو پھر جاہلوں ہی نے اسے لے لیا جنہیں معانی کی تو کیا خبر ہوتی الفاظ تک درست اور صحیح نہیں ادا کر سکتے ۔ لوگوں نے وعظ کہتے دیکھ کر انہیں عالم سمجھ لیا اور عالم سمجھ کر وعظ کے بعد فتوے پوچھنا شروع کر دئیے۔ یہ بیچارے عالم تو تھے نہیں مگر یہ کہتے ہوئے شرم آئی کہ مجھے مسائل نہیں معلوم ۔ مجبوراً جو جی میں آیا بتا دیا اور غلط سلط فتویٰ دے دیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ آخر زمانہ کے لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے جو بغیر علم کے فتوی دیں گے ، خود بھی گمراہ ہوں گے لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔ تو یہ نوبت کیوں آئی ؟ صرف اس لیے کہ جن کا یہ کام تھا انہوں نے چھوڑ دیا اور اپنے لیے موجبِ استخفاف ( حقارت) سمجھا، حالانکہ حضرات انبیاء علیہم السلام کا یہ اصل کام تھا، ان حضرات نے سوائے وعظ وپند اور تبلیغ واشاعت کے کبھی مدرسہ نہیں بنایا۔
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ عبدالمتین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد زبیر صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

