دوسروں کو آزادرکھنا،خاص مشورہ نہ دینا
ملفوظاتِ حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت قصبہ میں ایک عالم مدارس کی ضرورت ہے ۔ اگر حضرت مولوی صاحب سے فرمائیں اور وہ قبول فرمالیں تو اہل قصبہ کو امید ہے کہ ان شاء اللہ تعالی بہت نفع ہوگا ۔ فرمایا کہ فرماناتو بڑی چیز ہے ، میں تو ایسے معاملات میں رائے بھی کسی کو نہیں دیتا بلکہ خود صاحب معاملہ کے مشورہ لینے پر بھی کہہ دیتا ہوں کہ مجھ کا آپ کے مصالح اور حالات کا کما حقہ علم نہیں ۔ میں مشورہ سے معذور ہوں ۔ آپ خود اپنے مصالح پر نظر کرکے جو اپنے لئے بہتر مناسب خیال کریں عمل کرلیں ۔ ہاں دعا سے مجھ کو انکار نہیں ۔ عافیت اسی میں ہے ۔ میں کسی کے معاملات میں دخل نہیں دیتا ۔ ہر شخص کو آزادی ہے البتہ شریعت کے خلاف وہ کام نہ ہو پھر اجازت ہے ۔ مولوی صاحب یہاں پر موجود ہیں ۔ ان سے خود تمام معاملات طے کر لیے جائیں ۔ میری طرف سے بالکل آزادی ہے ۔ میرا معمول ہے کہ اگر دونوں طرف جائز بات ہو تو کسی جانب پر مجبور نہیں کرتا بلکہ دونوں طرف آزادی دیتا ہوں ۔ حتی کہ اگر کسی ایک شق میں میری بھی کوئی مصلحت ہو تب بھی اپنے صالح پر ان کے مصالح کو ترجیح دیتا ہوں اور نہایت صفائی کے ساتھ اپنی اس تخییر ( دوسرے کو انتخاب کا موقع دینے کاعمل )کو ظاہر کردیتا ہوں اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اپنے بزرگوں کی دعا کی برکت سے میری کوئی بات الجھی ہوئی نہیں ہوتی ۔ ہر بات نہایت صاف ہوتی ہے ۔ اگر مخاطب ذرا بھی فہیم ( سمجھدار) ہوتو فوراً سمجھ میں آجاتی ہے ۔
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ عبدالمتین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد زبیر صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

