جنت فضل پر ملے گی عمل پر نہیں
جنت فضل پر ملے گی۔ عمل پر نہیں
صوفیاء کرام جس کو رؤیت عمل اور خود پسندی کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ آدمی کو نیک عمل کرنے کے بعد اپنے عمل پر یہ گھمنڈ ہوجائے کہ یہ میرا عمل اتنا اچھا ہے کہ یہ مجھے سیدھا جنت میں لے جائے گا اور میرا جنت میں جانا اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کی بنیاد پر نہیں بلکہ میرے عمل کی ذاتی خاصیت کی بنیاد پر میں اس بات کا مستحق ہوچکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کردیں۔ یہ بڑی خطرناک بات ہے۔ ارے استحقاق کوئی چیز نہیں‘ تم کتنا ہی عمل کرتے رہو مگر جنت کا استحقاق پیدا نہیں ہوگا۔ اس لئے جنت کی نعمتیں غیر متناہی ہیں‘ اس کے آگے تمہارے عمل کی کیا حقیقت ہے؟ تم نے تو دو منٹ میں ایک عمل کرلیا‘ یا پانچ منٹ میں ایک عمل انجام دیدیا اور پھر کہنے لگے کہ مجھے اس عمل کے بدلے جنت چاہئے وہ جنت جو غیر متناہی ہے اور جس کی نعمتیں ابدی ہیں جن کی کوئی حدو نہایت نہیں‘ چار رکعات کے بدلے ایسی جنت مانگتے ہو؟ تم کتنا ہی عمل کرتے رہو پھر بھی جنت کا استحقاق نہیں ہوگا۔
فرض کرو کہ تم کو اسی سال کی زندگی ملی اور تم نے اپنی پوری زندگی سجدے میں پڑے پڑے گزار دی تو اس کا مطلب یہ ہوا تم نے زیادہ سے زیادہ اسی سال عبادت کی اور دوسری طرف جنت کی نعمتیں ‘ نہ سو سال‘ نہ ہزار سال ‘ نہ لاکھ سال بلکہ دائمی اور ابدی ہیں اگر انسان ساری عمر بھی عبادت کرتا رہے تو جنت کا استحقاق پیدا نہیں ہوگا۔ لہٰذا انسان کا کوئی عمل ایسا نہیں جو انسان کو جنت کا مستحق بنا دے‘ یہ ان کا کرم ہے کہ بعض مرتبہ وہ کہہ دیتے ہیں کہ اے بندے ! تو نے چونکہ یہ عمل کیا تھا‘ اس لئے ہم تمہیں جنت کا مستحق بنا دیتے ہیں۔
قرآن کریم کی بعض آیات میں استحقاق کی طرف اشارہ بھی فرمایا مگر وہ استحقاق بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیدا کیا ہوا ہے‘ ورنہ عمل کے اندر اپنی ذات میں یہ طاقت نہیں کہ وہ جنت کا مستحق بناتا‘ ساری زندگی روزے میں گزار دو‘ ساری زندگی عبادت میں ذکر و تسبیح میں گزاردو ۔ تب بھی استحقاق پیدا نہیں ہوگا۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/

