نفسانی خواہشات پر لگام کیسے ہوگی؟
نفس کو قابو میں رکھنے کامطلب یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کی ہر خواہش پر بے مہار ہوکر عمل نہ کرے، بلکہ پہلے یہ دیکھے کہ نفس کی کونسی خواہش جائز اور معقول ہے اور کونسی ناجائز اور نامعقول ، اس کے بعد اس کی صرف جائز اور معقول خواہشات پر عمل پیرا ہو، ناجائز اور نامعقول باتوں کو چھوڑ دے، اس لئے کہ انسان کی نفسانی خواہشات بے حد ونہایت ہوتی ہیں، اگر انسان اپنی خواہشات کو کھلی چھٹی دے دے تو دنیا کا تجربہ گواہ ہے کہ ان خواہشات میں کمی نہیں ہوتی، یہ اور بڑھتی چلی جاتی ہیں، انسان جتنا جتنا انکو ڈھیل دیتا ہے، یہ ایک نہ مٹنے والی بھوک اور نہ بجھنے والی پیاس میں تبدیل ہوجاتی ہیں، اور انسان سے وہ وہ کام کراکر چھوڑتی ہیں جو اسے جانوروں اور درندوں کی صف میں لاکھڑا کرتے ہیں، لہٰذا عقلمندی یہی ہے کہ ان نفسانی خواہشات کو بے لگام نہ ہونے دیا جائے بلکہ ان پر قابو رکھا جائے۔ اور ان پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ صرف ان خواہشات پر عمل کیا جائے جو اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق ہوں، اورجو خواہشات دینی طور پر ناجائز ہیں انہیں ترک کرنے میں خواہ کتنی ناگواری محسوس ہو، انہیں چھوڑ دیا جائے، کیونکہ یہ ناگواری بالکل عارضی ہوتی ہے، اور جب انسان ہمت کرکے اس پر صبرکرلیتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اسے ایسا سکون اور ضمیر کا ایسا اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
اس کے برعکس جو شخص اپنی نفسانی خواہشات کو بے مہار چھوڑ کر نفس کے ہرجائز اور ناجائز تقاضے پر عمل کرتا ہے اسے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نادان اور عاجز قرار دیا ہے، عاجز اس لئے کہ وہ اپنے آپ پر قابو نہیں رکھتا، اور نادان اس لئے کہ وہ نفسانی خواہشات کی پیروی کرکے لذت و راحت حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن تجربہ شاہد ہے کہ اسے لذت و راحت بھی پوری حاصل نہیں ہوتی، کیونکہ وہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ کی ہوس میں بے چین رہتا ہے، اور اسطرح انجام کار نہ اسے دنیا میں سکون ملتا ہے، اور نہ آخرت میں ۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/

