مسلم معاشرہ میں مغربی اثرات
ایک زمانہ تھا کہ مسلم خواتین کی سواریوں پر بھی پردے بندھے ہوئے ہوتے تھے اور پردہ شرافت کا نشان سمجھا جاتاتھا ، لیکن آج انہی شریف گھرانوں کی بیٹیاںبازاروں میں برہنہ سرگھوم رہی ہیں۔ بے پردگی کے سیلاب نے حیاء و غیرت کا ایسا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہےکہ دیندار گھرانوں میں بھی پردے کی اہمیت کا احساس گھٹ رہا ہے۔
بعض لوگ بے پردگی کی حمایت میں کہتے نظر آتے ہیں کہ ہماری بے پردگی کو یورپ اور امریکہ کی بے پردگی پر قیاس نہیں کیا جاسکتا اور یہاں کی بے پردگی وہ نتائج پیدا نہیں کرے گی جو مغرب میں پیدا ہو چکے ہیں لیکن خوب سمجھ لیجئے کہ جوکچھ مغرب میں ہوا یا ہو رہا ہے وہ فطرت کے ساتھ بغاوت کے لازمی اور منطقی نتائج ہیں ، یہ بغاوت جہاںکہیں ہوگی ، اپنے انہی منطقی نتائج تک پہنچ کر رہے گی ، ان نتائج کو کھوکھلے فلسفوں سے نہیں روکا جاسکتا اور جولوگ بے پردگی کو فروغ دینے کے بعد معاشرے میں عفت و عصمت باقی رکھنے کے دعوے کرتے ہیں یا تو خوداحمقوں کی جنت میں بستے ہیں یا دوسروں کی آنکھوں میںدھول جھونکنا چاہتے ہیں۔ واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ جب سے ہمارے معاشرے میں بے پردگی کا رواج بڑھا ہے اس وقت سے اغوا ، زنا اور دوسرے جرائم کی شرح کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے ، اور اس طرح جس مقدار میں ہم بے پردگی کی طرف بڑھے اسی تناسب سے مغربی معاشرے کی لعنتیں بھی ہمارے یہاں سرایت کر گئی ہیں۔
ان لعنتوں کے سدباب کا اگرکوئی راستہ ہے تو صرف یہ کہ ہم پردے کے سلسلے میں اپنے طرزعمل کو بدل کر دین فطرت کی انہی تعلیمات کی طرف لوٹیں جنہوں نے ہمیں پاکیزہ زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا ہے۔ان تعلیمات کو عام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر گھر کے ذمہ داران مرد حضرات اپنے گھر میں باور کرادیں کہ وہ اپنی موجودگی میں گھر کی خواتین کو بے پردہ نہیں دیکھیں گے تو ان شاء اللہ اس سیلاب پر روک ضرور قائم ہوگی۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/