سُستی کا علاج
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے ایک بیان سے انتخاب
عارف باللہ حضرت ڈاکٹر محمد عبدالحئی عارفی صدیقی رحمہ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی معمول کے پورا کرنے میں سُستی ہو رہی ہو‘ تو وہی موقع انسان کے امتحان کا ہے‘ اب ایک صورت تو یہ ہے کہ اس سُستی کے آگے ہتھیار ڈال دے‘ اور نفس کی بات مان لے‘ تو پھر اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آج ایک معمول میں ہتھیار ڈالے‘ کل کو نفس دوسرے معمول میں ہتھیار ڈلوائے گا اور پھر آہستہ آہستہ طبیعت اس سُستی کے تابع اور اس کی عادی ہو جائے گی۔
دوسری صورت یہ ہے کہ انسان سُستی کا ہمت سے مقابلہ کرکے اس معمول کو کر گزرے‘ محنت اور مشقت کرکے زبردستی اس کام کو کرے‘ تو پھر اس محنت اور مشقت اور مقابلہ کرنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ آئندہ بھی معمولات کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں گے۔حضرت عارفی رحمہ اللہ ایسے موقع پر حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا ملفوظ سنایا کرتے تھے جو یاد رکھنے‘ بلکہ دل پر نقش کرنے کے قابل ہے فرماتے تھے کہ ’’وہ ذرا سی بات جو حاصل ہے تصوف کا‘ یہ ہے کہ جس وقت کسی طاعت کی ادائیگی میں سُستی ہو‘ تو اس سُستی کا مقابلہ کرکے اس طاعت کو کرے‘ اور جس وقت کسی گناہ کا داعیہ (تقاضا) پیدا ہو‘ تو اس داعیے کا مقابلہ کرکے اس گناہ سے بچے‘ جب یہ بات حاصل ہو جائے تو پھر کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔اسی سے تعلق مع اللہ پیدا ہوتا ہے‘ اسی سے مضبوط ہوتا ہے اور اسی سے ترقی کرتا ہے‘‘۔
سُستی دور کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے یعنی اس سُستی کا ہمت سے مقابلہ کرنا‘ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شیخ (پیر و مرشد) کوئی نسخہ گھول کر پلا دے گا تو ساری سُستی دور ہو جائے گی۔یاد رکھئے! سُستی کا مقابلہ ہمت سے ہی ہوگا اور اس کا کوئی علاج نہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے سُستی کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے ۔آمین! (اصلاحی خطبات ج ۵)
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://kitabfarosh.com/category/kitabfarsoh-blogs/mufti-taqi-usmani-words/