محبوب بندوں پر پریشانی کیوں؟
حدیث شریف میں فرمایا گیا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو اس پر مختلف قسم کی آزمائشیں اور تکالیف بھیجتے ہیں۔۔۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ! یہ تو آپ کا محبوب بندہ ہے پھر اس پر اتنی آزمائشیں اور تکالیف کیوں بھیجی جا رہی ہیں؟ جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اس بندے کو اسی حال میں رہنے دو، اسلئے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں اس کی دعا اور اس کی گریہ وزاری کی آواز سنوں۔
اس کائنات میں انبیاء علیہم السلام سے زیادہ محبوب تو اللہ تعالیٰ کو کوئی اور ہو نہیں سکتا کہیں لیکن ان کے بارہ میں بھی حدیث شریف میں فرمایا گیا کہ اس دنیا میں سب سے زیادہ آزمائشیں انبیاء علیہم السلام پر آئی ہیں اور پھر اس کے بعد جو شخص انبیاء علیہم السلام سے جتنا زیادہ قریب ہوتا ہے اس پر اتنی ہی آزمائشیں زیادہ آئیں گی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھئے جن کا لقب ’’خلیل اللہ‘‘ یعنی اللہ کا دوست ہے۔ ان پر بڑی بڑی بلائیں اور بڑی بڑی مصیبتیں آئیں۔ ان کو آگ میں ڈالا گیا‘ ان کو بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا‘ بیوی بچے کو ایک بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑنے کا ان کو حکم دیا گیا‘ یہ تکالیف کیوں دی گئیں؟ تاکہ ان کے درجات بلند کیے جائیں۔ چنانچہ جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو انعام عطا فرمائیں گے تو اس وقت معلوم ہوگا کہ ان تکلیفوں کی پَر کاہ کے برابر بھی حیثیت نہیں تھی اور وہ ان تکالیف کو بھول جائیں گے۔
ایک حدیث شریف میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تکالیف پر صبر کرنے والوں کو آخرت میں انعام عطا فرمائیں گے تو دوسرے لوگ ان انعامات کو دیکھ کر یہ تمنا کریں گے کہ کاش! ہماری کھالیں قینچیوں سے کاٹی گئی ہوتیں اور ہم اس پر صبر کرتے تو آج ہم بھی ان انعامات کے مستحق ہوتے۔۔۔ بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو بعض اوقات اس لیے تکالیف دیتے ہیں تاکہ ان کے درجات بلند فرمائیں۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

